Ticker

6/recent/ticker-posts

تحفظ اوقاف کانفرنسوں کو انتشار کا ذریعہ نہ بننے دیں

تحفظ اوقاف کانفرنسوں کو انتشار کا ذریعہ نہ بننے دیں

ازمفتی محمد سعید عالم مظاہری

ریاست جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں تحفظ اوقاف کانفرس کے عنوان سے دو پروگرام ہورہے ہیں، ایک 6/اکتوبر کو حج ہاؤس کڈرو میں اور دوسرا 3/اکتوبر کو اربا میں، مرکزی حکومت ابھی پچھلے دنوں اوقاف پر ایک انتہائی خطرناک بل لیکر آئی تھی، یہ بل اگر پاس ہوکر قانون بن جاتا ہے تو مسلم وقف سرکاری جائیداد میں تبدیل ہوجائیگا، آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ نے اسکی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے بروقت اس سلسلہ میں میٹنگ بلائی اور یہ بل منظور نہ ہو اسکیلئے دوسری تدابیر کے ساتھ مسلمانوں کو بھی صحیح صورتحال سے واقف کرانے کیلئے بیداری مہم چلانے کی تجویز پاس کی، اور طے کیا گیا کہ بڑے بڑے شہروں میں خاص طور پر پروگرام منعقد کیے جائیں،چنانچہ ملک کے مختلف شہروں میں متعدد اجلاس منعقد ہوئے، امارت شرعیہ نے گذشتہ 15/ستمبر کو پٹنہ کے مشہور باپو سبھاگار میں تحفظ اوقاف کانفرنس کا انعقاد کیا، یہ ایک یادگار اور تاریخی پروگرام تھا، بہار، جھارکھنڈ، بنگال، اڈیشا کے علاوہ ساؤتھ کی ریاستوں سے بھی طاقتور نمائندگی ہوئی، ہر طبقہ کے علماء اور اہل فکر و دانش کی شرکت ہوئی، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم صاحب مجددی بھی شریک اجلاس ھوئے،جمعیت علماء، جماعت اسلامی، اہل حدیث اور ادا رۂ شرعیہ کے ذمہ داروں اور مندوبین نے اس طرح کے مسائل کو متحد ہوکر حل کرنے پر زور دیا، کلکتہ میں بھی اسی عنوان سے پروگرام ہوا، یہیں یہ طے کیا گیا کہ رانچی میں بھی ایک تحفظ اوقاف کانفرنس منعقد کی جائے، اور رانچی کے مولانا یاسین قاسمی صاحب کو اس پروگرام کا کنوینر نامزد کر دیا گیا، رانچی کے لوگوں نے مشورہ سے انہیں کنوینر نہیں بنایا، ڈاکٹر صاحب اپنے کارناموں اور ذاتی خوبیوں کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں، رانچی کے لوگوں نے کافی آواز بلند کی کہ رانچی والوں کے مشورہ سے یہ انتخاب ہونا چاہئے تھا، جے پور سے حیدر آباد تک انکے خلاف آواز بلند کی گئ لیکن ساری کوششیں صدا بصحرا ثابت ھوئی، بڑا اعتراض لوگوں کو یہی ہے کہ کم ازکم تحفظ اوقاف کانفرنس کا کنوینر ایسے شخص کو نہیں ہونا چاہئے جو خود اوقاف کی جائیداد کو ہڑپ کرکے بیٹھا ہوا ہے، عوامی چندہ سے زمین خریدی اور کچھ روز پہلے کئ کروڑ میں اسے بیچ کر کئ شہروں میں فلیٹ خرید کر قوم کے غم میں پریشان ہیں، جو بات سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ کہ بورڈ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہ پروگرام رانچی کے لوگ کر رہے ہیں، اس پروگرام کا کنوینر، استقبالیہ کا سرپرست، خازن وغیرہ کون ہو یہ کام رانچی کے لوگوں کا ہے، مولانا ابو طالب رحمانی صاحب کا کلکتہ سے سفر کرکے آنا اور میٹنگوں میں شریک ہونا اور مشورے دینا جھارکھنڈ باسیوں سے انکے تعلق کا غماز ہے، مولانا رحمانی کے علاوہ حج ہاؤس پروگرام میں وہی شخصیتیں پیش پیش ہیں جنہوں نے اس سے پہلے رانچی تفہیم شریعت کے پروگرام میں ذمہ دارانہ رول ادا کیا تھا، اورتفہیم شریعت پروگرام کے کنوینر امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو نہ پوچھکر نہ صرف انکی بلکہ امارت شرعیہ کی توہین کی اوراس قدیم مؤقر تنظیم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، میری مراد ہیں سابق ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن صاحب قاسمی چمپارنی کے سمدھی ڈاکٹر مجید عالم صاحب چمپارنی، یہ وہی معروف شخصیت ہے جس نے ملت اور امارت کی پچیس ایکڑ زمین کو جو رانچی شہر کے انتہائی قیمتی علاقہ میں تھی مافیا لوگوں کو دلوادی اور اسکے بدلہ میں امارت اور ملت کو اربا میں زمین ملی، لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنی دس ایکڑ زمیں جو ملت کی زمین سے متصل تھی بچالی، امارت کی طرف سے جو لوگ اس قضیہ کو دیکھ رہے تھے ان میں سے کچھ لوگوں کو بھی ڈاکٹر صاحب نے اس ڈیل سے فائدہ پہنچایا , دوسری شخصیت چترا کے مولانا نذر توحید صاحب مظاہری کی ہے، پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرۃ الاستاذ مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم رانچی تفہیم شریعت پروگرام کے ذمہ داروں کے ذاتی عناد پر مبنی اس نا زیبا عمل کی خطرناکی کو محسوس نہیں کرسکے، د وسری ریاستوں میں بھی یہ غلطی ہوئی، لوگوں کے علم میں ہوگا کہ مولانا ابو طالب صاحب اور مولانا نذر توحید صاحب مولانا ولی رحمانی کے خاص اور مقرب لوگوں میں تھے، مولانا سید نظام الدین صاحب کو بھی ان لوگوں نے بہت پریشان کیا، امارت کے مختلف شعبوں کے ذمہ داران کو ان لوگوں نے اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مولانا ولی رحمانی صاحب ان لوگوں پر اعتماد کرتے تھے، یہ حضرات اسکا ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے، کلکتہ کے مولانا صاحب مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کے امیر بننے تک ایک سپاہی بلکہ ایک کرنل کا رول ادا کرتے رہے، اسکے بعد معلوم نہیں کیوں موصوف امیر شریعت سے ناراض ہوگئے، امارت شرعیہ پھلواری شریف کی طرف سے چترا کیلئے مقر رقاضی مولانا نذر توحید صاحب بھی اخیر تک ہر میٹنگ اور انتخاب کیلئے وضع کردہ ھر ضابطہ میں اور ہر ترمیم میں شریک و دخیل رہے، پھر اپنے کچھ دوستوں، کچھ رشتہ داروں اور جمشید پور میں جھارکھنڈ سے باھر کے کچھ مقیم لوگوں کے ذریعہ ڈرامائی انداز میں چترا‌کے حضرت مفتی صاحب مڑما میں امیر المومنین بنا دئیے گئے 6/اکتوبر کے پروگرام کیلیے چھپے اشتہار میں جمشید پور کے اس کارو باری نوجوان کا نام کیونکر چھوٹ سکتا تھا جس نے بقول مولانا عبید اللہ صاحب قاسمی فرضی امیر شریعت جھارکھنڈ کو کھڑا کرنے اور امارت شرعیہ کو کمزور کرنے اور ملت کے شیرازہ کو بکھیرنے کیلئے ھر ماہ ایک معقول رقم دینے کا اعلان کیا تھا، اس علان کے ایک گواہ مولانا عبیداللہ صاحب بھی ہیں،،

3/اکتوبر کا پروگرام اربا کے جناب انوار صاحب اس پروگرام کے داعی ہیں،، اس پروگرام کے سلسلہ میں ایک بات تو یہ کہی جارہی ہےکہ اسکو امارت شرعیہ کر رہی ہے'، جبکہ انوار صاحب تفصیل بھی بتا رہے ہیں کہ یہ بہت پہلے سے طے تھا، انوار صاحب نے امیر شریعت صاحب سے شرکت کی درخواست کی اور ساتھ ہی یہ بھی درخواست کی کہ آپ امارت کی طرف سے اس میں لوگوں کو شریک ہونے کیلئے فرمادیں، امیر شریعت صاحب نے پروگرام کی اہمیت کے پیش نظر چاہا کہ اسکی کامیابی کیلیے جو بھی کیا جاسکتا ہے کیا جانا چاہئے، لیکن لوگ اپنی فطرت کے مطابق امیر شریعت کو گالی گلوج کر رہے ہیں، طرح طرح کا الزام لگارہے ہیں، کوئ کہ رہا ہے بورڈ کو کمزور کرنے کی کوشش ہے، کوئی کہ رہا ہے یہ امریکہ اور یہودی کمپنیوں کے اشارے پر کر رہے ہیں، تمہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے،، بورڈ کی طرف سے تنظیموں اور عام مسلمانوں سے کہا گیا ہیکہ اوقاف بل کے خلاف پروگرام کریں، اربا کا یہ پروگرام بورڈ کے اسی حکم کی تعمیل ہے، اس مہم کو آگے بڑھانے کی ایک قابل قدرکوشش ہے، یہ بحث فضول ہیکہ یہ پروگرام کون کر رہا ہے، اربا کے مسلمان‌ یا امارت، یا امارت کے تعاون سے انو ر صاحب اسے کر رہے ہیں، ایک بات یہ بھی ہیکہ دونوں پروگرام کی نوعیت الگ ہے، اربا میں زیادہ تر اسپیکر سیاست سے تعلق رکھتے ہیں اگرچہ دونوں کا ہدف اور مقصد ایک ہے، اگر دونوں پروگراموں کے مقررین اور مہمانوں پر نظر ڈالی جاۓ تو اربا کا پروگرام حصول مقصد میں زیادہ کارگر اور مفید نظر آتا ہے، جناب سید ناصر حسین صاحب، جناب گورو گگوئی صاحب، جناب عمران مسعود صاحب،یہ تینوں ممبر آف پارلیمنٹ ہیں، ناصر صاحب جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے بھی رکن ہیں، جھارکھنڈ سرکار کے وزیر جناب عرفان انصاری اور ڈاکٹر سرفراز احمد صاحب ممبر آف پارلیمنٹ و چئیرمین جھارکھنڈ سنی وقف بورڈ کی پروگرام میں شرکت ہورہی ہے،دوسری بات یہ کہ اگر ایک ہی شھر میں اور ایک ہفتہ کے اندر ایک ہی موضوع پر مسلمانوں کے دو بڑے پروگرام ہوں تو اسکا یہ مسیج جائیگا کہ واقعی مسلمانوں کی نزدیک یہ بہت اہم اور حساس ایشو ہے، لہذا خواہ مخواہ ناسمجھی میں یا ذاتی دشمنی اور ذاتی مفاد کیلئے ان پروگراموں کو انتشار و افتراق کا ذریعۂ نہ بنایا جائے، کچھ لوگ پرسنل لا بورڈ کا پلیٹ فارم استعمال کرکے ذاتی دشمنی نکال رہے ہیں یا اپنے فائدہ کیلئے ملت کو افتراق و انتشار سے دو چار کر رہے ہیں، بورڈ کی قیادت کو چاھئے کو ہوشمندی وبیدار مغزی سے کام لیتے ہوئے ایسے عناصر پر نظر رکھے، بورڈ کو ہر اس عمل سے بچنا چاھئے جس سے اختلاف پیدا ہو، بورڈ نے روز اول سے اسکا لحاظ کیا ہے، جاننے والے جانتے ہیں کہ بورڈ کا پہلا کنونشن دیوبند میں نہ رکھکر بمبئ میں رکھا گیا تاکہ ہر مکتبۂ فکر کے نمائندے شریک ہوسکیں،مولانا فضل الرحیم صاحب مجددی کا امیر شریعت کے نام ایک خط بہت وائرل ہورہا ہے،‌ایسا لگتا ہے کہ یہ خط کسی ایسے شخص نے لکھا ہے جو نہ یہ جان رہا ہیکہ یہ کسے بھیجا جارہا ہے، اور محترم سکریٹری صاحب نے بغیر پڑھے دستخط ثبت کر دئیے، ملت بہت سارے مسائل و مشکلات میں گھری ھوئ ہے، جھارکھنڈ میں ودھان سبھا انتخاب کا اعلان ہونے والا ہے، ووٹ جمہوریت میں بہت بڑی طاقت ہے، ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ ووٹ کا صحیح استعمال ہو، بیداری کی مہم چلانی چاھئے تاکہ فرقہ پرست طاقتوں کو ہمارے بکھراؤ سے تقویت اور سیکولر پارٹیوں کو نقصان نہ پہنچے،، جھارکھنڈ کے تمام مسلمانوں سے اپیل ہیکہ دونوں پرو گراموں میں بھاری تعداد میں شریک ہوکر تحفظ اوقاف کی مہم کو کامیاب بنائیں،،
مفتی محمد سعید عالم مظاہری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے