مسلماں ہوں اگر میں تو کہو اس میں برا کیا ہے؟ پریم ناتھ بسملؔ صوفی غزل اردو شاعری
غزل
مسلماں ہوں اگر میں تو کہو اس میں برا کیا ہے
کہ تم بھگوان کہتے ہو، میں کہتا ہوں خدا کیا ہے
یہ دھرتی ایک ہے اور آسماں بھی ایک ہے یارو
خدا جب ایک ہے، دَیر و حرم کا معاملہ کیا ہے
حوصلہ افزائی کے اشعار
وہیں پھر لَوٹ جانا ہے،جہاں سے آئے ہیں ہم سب
کہ منزل ایک ہی ہے، ہم سفر ہیں، فاصلہ کیا ہے
اگر قدرت ہے تیرے ہاتھ میں تو تُو بھلائی کر
ستا ایسے نہ مفلس کو، تِرا اس میں بھلا کیا ہے
صوفیانہ شاعری
اگر رہبر بنو تو رہبری کی بات بھی کرنا
جلا ڈالے کسی کا گھر، بھلا وہ رہنما کیا ہے
اگر سورج نکلتا ہے، اندھیرے بھاگ جاتے ہیں
تو دن کو رات کہتا ہے، تو سورج کی خطا کیا ہے
زندگی اور موت صوفی شاعری
وہ جلوہ گر ہے ہر جانب، جدھر چاہے نظارہ کر
تو ناداں ہے، نہ دکھتا ہے، یہاں اس کے سوا کیا ہے
محبت مل گئی مجھ کو کہ شہرت مل گئی مجھ کو
تجھے کیا کیا کہوں بسملؔ کہ اردو سے ملا کیا ہے
پریم ناتھ بسملؔ
مرادپور، مہوا، ویشالی، بہار
0 تبصرے