روحانیت کا ایک ستارہ غروب ہو گیا
تحریر: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ
غالباً 2008 کی بات ہے۔ اس وقت میں دارالعلوم رامپورہ، سورت (گجرات) میں درجۂ حفظ کا طالب علم تھا۔ اچانک مدرسہ کی طرف سے اعلان ہوا: سب تیار ہو جاؤ!
کہاں جانا ہے؟ کیوں جانا ہے؟ کچھ معلوم نہ تھا، مگر جب مدرسہ کی چہار دیواری سے باہر نکلنے کا حکم ہو تو پھر آگے پیچھے کون سوچتا ہے۔ آنا فانا ہم سب تیار ہوئے اور گیٹ کے باہر جمع ہو گئے وہاں بتایا گیا کہ پاکستان سے ایک بزرگ، جلیل القدر عالمِ دین تشریف لا رہے ہیں، جن کے روحانی و عرفانی کلمات سننے کے لیے ہمیں لے جایا جا رہا ہے۔ مدرسہ کی طرف سے گاڑی مختص تھی۔ سورت کے کس علاقے میں بیان تھا، فی الوقت وہ ذہن میں نہیں، عمر کم تھی اور شعور اس درجہ پختہ نہ تھا کہ بزرگوں کی قدر و قیمت دل میں پوری طرح اترتی۔ بس تفریحِ طبع کے طور پر میں بھی قافلے کا حصہ بن گیا۔
جیسے ہی ہم اس مقام پر پہنچے، تاحدِّ نگاہ انسانوں کا سمندر موجزن تھا۔ کانوں سے ایک ہی نام ٹکرا رہا تھا:
حضرت جی، پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم۔
یہ ہجوم دیکھ کر دل کے اندر بھی کچھ بدلنے لگا۔ شوق جاگا کہ قریب سے زیارت ہو۔ اسٹیج سے کچھ فاصلے پر جگہ ملی اور وہیں رک گئے۔ جدھر نظر دوڑاتا، صرف سر ہی سر نظر آتے۔ ایسی خلقت کا اجتماع کسی عام انسان کے لیے نہیں، یہ کسی برگزیدہ، خدا پرست ہستی ہی کے حصے میں آتا ہے۔
حضرت جی تشریف لائے اور کرسی پر جلوہ افروز ہوئے۔ ابھی زبانِ مبارک سے خطبے کے الفاظ ادا بھی نہ ہوئے تھے کہ غالباً ان کے کان میں گجرات حکومت کے ایک غیر منصفانہ فیصلے کی خبر دی گئی کہ خطاب کی اجازت نہیں ہے۔
بہرحال، رسمی خطاب سے گریز کرتے ہوئے حضرت نے اپنی کتاب سے چند واقعات اور ناصحانہ کلمات ارشاد فرمائے۔ دورانِ مجلس بارش بھی ہوئی، مگر مجمع کا حال ایسا تھا گویا سانپ سونگھ گیا ہو۔ نگاہیں ٹکٹکی باندھے تھیں، دل تھمے ہوئے تھے۔
وہ ولی صفت، خدا رسیدہ، مفسرِ قرآن، مبلغِ اسلام، پیکرِ صدق و صفا، اخلاقِ حسنہ سے مزین، رہبرِ شریعت، گم گشتہ راہوں کو راہ دکھانے والا، متبعِ سنت، حاملِ قرآن ان کے پرنور چہرے کی زیارت میں ہر آنکھ محو تھی۔
مجلس کے اختتام پر ہم مدرسہ واپس آئے۔ دل خوشی اور عجب سرور سے لبریز تھا۔ تب سے لے کر آج تک، 2025 تک، میں فخر سے یہ کہتا رہا کہ میں نے حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی رحمہ اللہ کو سامنے سے دیکھا اور سنا ہے۔ 2008 کے وہ تمام مناظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے تازہ ہیں۔
آج، بتاریخ 14 دسمبر 2025، قریب دس بجے دن یہ خبر ملی کہ حضرت نے قضائے الٰہی کو لبیک کہہ دیا۔ دل کو جیسے کسی نے زور سے تھام لیا۔
مگر یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ جن کی زندگی اللہ، اللہ میں گزری ہو، ان کی موت بھی یقیناً اللہ کی رضا میں ہوتی ہے۔ نیک بندوں کے لیے اللہ کے یہاں بہترین بدلہ ہے۔
حضرت کے کمالات و خصوصیات کا احاطہ میرے جیسے حقیر قلم کے بس کی بات نہیں۔ جس کی بزرگی پر عالم گواہی دے، اس کے تذکرے میری اس تحریر میں سمٹ نہیں سکتے۔
اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے، ان کے فیوض و برکات کو جاری رکھے، اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
0 تبصرے