Ticker

6/recent/ticker-posts

سرسید کی مضمون نگاری، سرسیداحمدخاں کی انشاء پردازی | سرسید احمد خان کے مضمون رسم و رواج کا خلاصہ

مضمون رسم ورواج میں سرسید احمد خاں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے واضح فرمائیں

جواب : سرسید احمدخاں ایک جامع الصفات شخص تھے۔ ادبی کام ان کی زندگی کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ دراصل مصلح قوم تھے ۔ اصلاحی کام ان کو بیحد عزیز تھا۔ جن کاموں کو قومی ترقی کے لئے وہ ضروری سمجھتے تھے ۔ اس کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اپنی زبان اور قلم کو استعمال کرتے تھے ۔ انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق اسی مقصد کے لئے جاری کیا تھا تا کہ مضامین لکھ کرتعلیمی، معاشرتی اور ادبی مشن کو پورا کیا جاۓ ۔ وہ ایک انتھک اور ہوشمند مصلح قوم تھے۔ اردو ادب کی اصلاح بھی ان کے کام کا ایک جز و تھی ۔ انہوں نے صاف سادہ، پر زور نشر کی بنیاد ڈالی ہے ۔ اپنے اصلاحی خیالات کی ترسیل کے لئے سرسیداحمدخاں نے اردو زبان کو استعمال کر کے ذرہ سے آفتاب بنادیا ہے۔ اردولڑیچر میں سرسید سے قبل صرف عشق و عاشقی کے مضامین تھے۔ لیکن سرسید مرحوم کی بدولت ہی اردو اس قابل ہوئی کہ ملکی ، سیاسی، اخلاقی، تاریخی، الغرض ہرقسم کے مضامین کی حامل بنی۔ سرسید کے مضامین میں ہم درد، وسعت و جامعیت پاتے ہیں سر سید کی انشاء پردازی کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے علمی مسئلہ میں بحث کرتے وقت اردو زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کا بکثرت استعمال کرکے اردو کو نئے الفاظ بھی عطا فرمائی ہے ۔ اردو جیسی کم مایہ زبان کو فلسفہ الہیات کے قابل بنانے کے لئے سر سید کی کوشش لائق ستائش ہے ۔

سرسیداحمدخاں کی انشاء پردازی اور اصلاح معاشرہ کے متعلق اپنے خیالات قلم بند فرمائیں

رسم و رواج کے عنوان سے اس طویل مقالہ میں انہوں نے رسم و رواج کی اہمیت اور حقیقت بیان فرمائی ہے ۔رسم وہ طور طریقہ ہے جو وراثت میں ہم لوگ اپنے بزرگوں سے پاتے ہیں اور یہیں سوچتے ہیں کہ ایسا طور طریقہ کیوں اور کب ؛ رائج ہوا ؟ اور جب سی رسم کو بغیرکسی جھجھک یا تامل ہم لوگ پابندی سے ادا کرنے لگتے ہیں تو یہ رواج کہلاتا ہے ۔
 رسم و رواج انسان کے دل و دماغ پر اتنا زبر دست اثر کرتی ہے کہ انسان اس کی تابع داری پر مجبور ہو تا ہے ۔ اس کی نافرمانی کو گناہ تصور کرنے لگتا ہے ۔ رسم ورواج کا تعلق مذہب، حکومت اور معاشرت سے بھی ہوتا ہے۔ مذہبی رسومات کی پابندی انسان کو سچائی، بھلائی جسے اعلی درجے کے کمالات تک پہنچاتی ہے ۔ حکومت کے رسومات کو ادا کرنے والے حکیم و دانا اور حکومت کے وفادار، وطن پرست خیرخواہ تصور کئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح ، معاشرتی رسوم کی پاسداری کرنے والے لوگ اپنی پہچان کا رشتہ ایک قوم یا معاشرہ سے جوڑتے ہیں ۔

رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات، سرسید احمد خان کے ادبی مضامین کا تنقیدی جائزہ

گولڈ اسمتھ کے قول کے مطابق :
 رسم و رواج درحقیقت اپنے باپ دادا کے حکموں کو ورثہ کے طور پر لیتا ہے جس پر خو دلوگ چلتے ہیں ، اور نہایت خوشی اور رضامندی سے ان کو اپناتے ہیں۔ اس لئے ملکی رسم ورواج کا جاری رہنا قومی آزادی کا نشان ہے اور چونکہ یہ رسمیں اس ملک کے معزز و قابل ادب بزرگوں سے ملی آتی ہے ۔
عموما رسم و روارج وقت کی ایک ضرورت ہوتی ہے اس کو تبدیل بھی کیا جاتا ہے ۔ تاکہ جو باتیں بطور رسم کسی خاص زمانہ کے لئے سودمند ہوتی ہیں ۔ زمات وحالات کی تبدیلی کے نتیجہ میں وہی مفید رسم مضرثابت ہونے لگتی ہیں اس لئے رسم کے نقصان سے بچنے کے لئے اصلاحی تحریکیں اٹھیں ہیں ۔ اور پرانے رسم کو بدل کر نیا رسم شروع کیا جا تا ہے ۔ جیسا کہ ہم ہندوستان میں بچپن کی شادی، عورتوں کا مردوں کے میت کے ساتھ زندہ جلنے کا رواج ، جوستی کے نام سے مشہور تھا، تبدیل کیا گیا ہے۔

رسم و رواج کا تعلق مذہبی عقائد اور تصورات سے بھی منسلک پایا جاتا ہے ۔ جیسے ہندو اور رومن کیتھلک، عیسائی اور پیشواؤں کی مورتوں کے سامنے پرستش کرتا ، روحانی خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ تصور کر تے ہیں ۔ جبکہ مسلمان، یہودی ، پروٹسٹنٹ عیسائی اس تصور کو روحانی موت کا سبب خیال کرتے ہیں ۔ اسی طرح مختلف رسم و رواج میں قوموں کے درمیان ایک جیسے جذبات نہیں پاۓ جاتے ہیں ، ہمیں رسوم و روایات کی پابندی کرتے وقت جہاں ہوشمندی سے کام لینا چاہیئے ، فائدہ اور نقصانات پر دھیان رکھنا چاہیے۔ وہیں اس بات کا بھی خیال رکھناچاہئے کہ ہم کسی قوم کی دل آزاری یا تضحیک سامان نہ پیدا کریں۔ بلکہ نہایت شائستگی کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کریں ۔ ورنہ یہی رسم ورواج کے ساتھ شدید جوش ہمیں وحسشی اور ظالموں کے صفوں میں لا کھڑا کرتی ہے ۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے