Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو ڈرامے کا آغاز و ارتقاء میں ڈاکٹر عابد حسین کا ڈرامہ پردہ غفلت کا جائزہ

اردو ڈرامے کا آغاز و ارتقاء میں ڈاکٹر عابد حسین کا ڈرامہ پردہ غفلت کا جائزہ


ڈراما ادب کی اہم ترین اصناف میں شمار ہوتا ہے، ڈراما کی تعریف سب سے پہلے یونان کے مشہور فلسفی اور نقاد ارسطو نے اپنی مشہور کتاب بوطیقا میں کی جس میں انہوں نے ڈرامے کو انسانی اعمال کی نقل قرار دیا ہے۔

اردو میں ڈرامے کا آغاز انیسویں صدی کے وسط میں ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی عمر بہت مختصر ہے۔

اردو کا پہلا اسٹیج ڈرامہ کون سا ہے

محققین کی رائے کے مطابق نواب واجد علی شاہ اردو کے پہلے ڈراما نگار ہیں۔ اور ان کا رہس، رادھا کنہیا کا قصہ اردو ڈرامے کا نقش اول ہے۔ اس سے کچھ ہی عرصے بعد سید آغا حسین امانت کا اندرسبھا عوامی اسٹیج پر پیش کیا گیا جسے کافی پسند کیا گیا۔

اندرسبھا اردو کا پہلا ڈرامہ نہیں ہے

مسعود حسین رضوی لکھتے ہیں۔ "اندرسبھا اردو کا پہلا ڈرامہ نہیں ہے، لیکن اس کی تاریخی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ وہ اردو کا پہلا ڈرامہ ہے جو عوای اسٹیج کے لئے لکھا گیا۔ وہ پہلا ڈرامہ ہے جس کو عام مقبولیت نے ملک میں شہر شہر اور اودھ میں گاؤں گاؤں پہنچا دیا۔ وہ اردو کا پہلا ڈرامہ ہے جو چھپ کر منظر عام پر آیا اور سینکڑوں مرتبہ شائع ہوا۔ "

اندر سبھا کی کامیابی اور شہرت

اندر سبھا کی کامیابی اور شہرت کے زیر اثر اس انداز اور طرز پر کئی ناٹک لکھے گئے۔ ان میں مداری لال کا اندر سبھا سب سے زیادہ مقبول ہوا، شیخ پیر بخش نے بھی اندر سبھا کی طرز پر ایک ناٹک" ناگر سبھا "لکھا جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کڑی میں ماسٹر اللہ حسین کا ڈرامہ "بلبل بیمار" ڈرامہ کی تاریخ میں نیا موڑ ثابت ہوا۔ ہر چند کہ ڈراما مقبول عام کی سند حاصل کر رہا تھا، لیکن انیسویں صدی کے اواخر تک ڈرامے کے فن کو نہ تو سنجیدگی سے محسوس کیا گیا اور نہ اس میں صنف کی حیثیت سے کوئی نیا تجربہ سامنے آیا، البتہ کئی تھیڑٹیکل کمپنیوں کے وجود میں آجانے سے ڈرامے کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا۔ ڈرانے کا دوسرا دور بمبئی سے شروع ہوتا ہے، اس دور کے ڈرامہ نگاروں میں احسن لکھنوی، بیتاب بناری اور طالب بناری کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اس دور میں جو شہرت آغا حشر کاشمیری کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی، آغا حشر نے فنی طور پر ڈرامہ کو وسعت بخشی، پر زور مکالمے لکھے، جاندار کردار کی تخلیق کی، ڈراما نگاری کو مافوق الفطرت عناصر سے پاک کر کے زندگی کے اجتماعی مسائل کو جگہ دی۔

ڈرامے کا تیسرا دور

ڈرامے کا تیسرا دور بمبئی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس دور کے ممتاز ڈرامہ نگاروں میں حکیم احمد شجاع، منشی دیا نارائن علم، عبد العلیم شرر، سید عابد حسین اور امتیاز علی تاج ہیں، امتیاز علی تاج نے انار کلی لکھ کر ڈرامہ نویسی کے باب میں انوکھا اضافہ کیا۔ سچائی تو یہ ہے کہ عہد آغا حشر کے فوراً بعد کے ڈراموں میں دو ہی ڈرامے قابل ذکر کہے جا سکتے ہیں۔ ایک امتیاز علی تاج کا ڈرامہ انار کلی اور دوسرا عابد حسین کا ڈرامہ پردہ غفلت۔

ڈراما پردہ غفلت

پردہ غفلت کو اردو ڈرامے میں انار کلی کے بعد دوسرا اہم ڈراما گردانا جاتا ہے، قمر اعظم ہاشمی نے پردہ غفلت کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوۓ لکھا ہے:

’’بیسویں صدی کے اوائل میں جتنے حقیقت پسندانہ اور مسائلی ڈرامے لکھے گئے ان میں عابد حسین کا پردہ غفلت نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔‘‘

پردہء غفلت کے مصنف ڈاکٹر عابد حسین کا مختصر تعارف
ڈاکٹر عابد حسین 1896 میں فرخ آباد میں پیدا ہوئے۔ اور تحصیل علم کے خاطر جرمنی گئے حصول علم کے دوران انہوں نے معاشرتی اور تہذیبی سرگرمیوں کو بڑے غور سے دیکھا اور وہاں کے تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں سے کسب فیض کر کے اپنی تخلیق کے ذریعہ اسے ڈرامے کی شکل میں میں پیش کیا۔

ڈراما پردہ غفلت کا موضوع

ڈراما پردہ غفلت کا موضوع ایک طرف جاگیردارانہ نظام اور روایتی اقدار ہے تو دوسری طرف جدید طرز اور روشن خیالات کی ٹکراہٹ ہے۔ اس میں معاشرتی اصلاح اور جاگیردارانہ نظام کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی گئی ہے اور رفتار زمانہ کی تبدیلی کو بھی کرداروں کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے۔

ڈراما پردہ غفلت کے کردار

کل ۷۲ صفحات پر مشتمل اس ڈرامے میں رسول آباد کے زمیندار الطاف حسین، ان کی بیوی رقیه خاتون، ان کی لڑکی صغری، ان کا داماد محمد محسن، سعیدہ ان کی بہن، منظور حسین ان کا بھتیجے، شیخ کرامت علی، محمد جواد، گنگا سہائے اور سیتا رام مہاجن کے علاوہ کئی ضمنی کردار ہیں۔

ڈراما پردہ غفلت کا قصّہ

بنیادی طور پر اس ڈرامے میں نئی اور پرانی قدروں کی تصادم کو پیش کیا گیا ہے، اس نظریاتی تصادم کے نقط نظر سے سعیدہ اور منظور حسین اس میں اہم کردار ہیں۔ الطاف حسین نے ان دونوں کی پرورش کی ہے، سعیدہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن رقیہ خاتون کو یہ گوارا نہیں ہے، اس کے نزدیک سعیدہ کا تعلیم حاصل کرنا گناہ کبیرہ ہے، اس بابت سعیدہ اور رقیہ میں کافی نوک جھونک ہوتی ہے۔ دراصل یہ نوک جھونک پرانی اور نئی قدروں کا تصادم ہے۔ ایک طرف رقیہ خاتون گرتی ہوئی روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے وہیں سعیدہ نئی قدروں کے ساتھ قدم ملا کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ وہ پردے کی بھی سخت مخالف ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ سماج کے ان فرسودہ بنائے ہوئے قائدے اور ضابطے عورتوں کی ترقی میں رکاوٹ ہیں، لہذا اس قسم کے ماحول میں اس کا دم گھٹتا ہے اور ایک دن وہ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ داکٹر عابد حسین نے اس کردار کے ذریعہ فرسودہ طور طریقے اور رسم ورواج پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پرانی قدروں کی دہائی دے کر ہم اپنی پہچان کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ سماج کو فرسودہ رسم ورواج کے دائرے سے نکلنا ہوگا اور نئے اقدار حیات کو قبول کرنا ہوگا۔

ڈراما پردہ غفلت کا پلاٹ

ڈاکٹر عابد حسین نے ڈرامے کا پلاٹ بڑی خوبصورتی کے ساتھ تیار کیا ہے کرداروں کی ترتیب کو بھی کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ واقعہ طرازی میں کرداروں کے عمل پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سبھی کردار ہماری زندگی کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔

پردہ غفلت میں چونکہ معاشرے اور سماج کے مسائل کو ڈرامے کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے، لہذا اسے مسائلی ڈرامے کی اچھی مثال کہا جا سکتا ہے۔ عطیہ نشاط نے پردہ غفلت کے خصائص اور اہمیت پر ان الفاظ میں اظہار خیال کیا ہے۔ "یورپی ڈرامے سے متاثر ہو کر مسائلی ڈراموں کو پیش کرنے کی یہ بڑی کامیاب کوشش ہے۔ اور اردو ڈراموں کی بے بضاعتی کو دیکھتے ہوۓ پردہ غفلت بہت اہم تخلیق ہے جس نے اردو ڈرامے کو نئے راستے پر لگانے پر نمایاں حصہ لیا۔" لیکن اتنا ہوتے ہوئے بھی اس ڈرامے کی کچھ خامیاں ایسی ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ڈرامے کے کردار دبے دبے سے دکھائی دیتے ہیں اور مکالمے میں عالمانہ انداز برقرار ہے، بقول قمر اعظم ہاشمی" پردہ غفلت کے مکالموں میں ڈرامائیت سے زیادہ خطابت ہے۔


Urdu Prem

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے