Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو میں ڈراما نگاری کی روایت | اردو میں ڈراما نگاری کا آغاز و ارتقا

اردو میں ڈراما نگاری کی روایت | اردو میں ڈراما نگاری کا آغاز و ارتقا


اردو میں ڈرامہ نگاری کی روایت ہندوستان میں قدیم ہے۔ قدیم ہند آریائی تہذیب کے زمانہ عروج میں سنسکرت ڈراما اپنی پوری فنی آب و تاب کے ساتھ درجہ کمال پر تھا لیکن آریائی تہذیب کے زوال کے ساتھ ساتھ سنسکرت ڈرامے کی روایت بھی دم توڑ گئی۔ دیگر علاقائی و مقامی پر اکر توں میں ڈرامے کے فن کو اپنے اندر جذب کر پانے کی صلاحیت نہ تھی لہذاعوام سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں نے ڈرامے کی صنف پر کوئی توجہ نہیں دی اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ عربی و فارسی میں ڈرامے کی روایت ان کے سامنے نہ تھی اور نہ سنسکرت ڈرامے کی روایت باقی تھی لہذا ڈرامے کی صنف ان کی سر پرستی سے محروم رہی۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو ڈرامہ کسی روایت کے تسلسل کے تحت نہیں بلکہ شخصی دلچسپی اور اپنے مخصوص حالات اور اسباب و عوامل کے تحت وجود میں آیا۔

اردو میں ڈراما نگاری کا آغاز و ارتقا

اردو ڈرامے کا اولین نقش انیسویں صدی کے وسط سے ملتے ہیں

اردو ڈرامے کا اولین نقش انیسویں صدی کے وسط سے ملتے ہیں جب لکھنؤ کے نواب واجد علی شاہ نے اپنے دربار میں رہس (رہس دراصل کرشن اور گوپیوں کی روداد محبت کا نام ہے) ’’رادھا کنھیا‘‘ 1843 میں بڑی شان سے کھیلا گیا۔ اچو نکہ یہ ڈرامہ در بار کے اندر کھیلا گیا تھا لہذا اس ڈرامے کو شہرت و مقبولیت تو حاصل ہوئی لیکن عوام کا ایک بڑا طبقہ اس کو دیکھنے سے محروم رہا۔ 1852 میں آغا حسن امانت نے ’’ اندر سبھا‘‘ نام سے منظوم ڈرامہ لکھا اور 1854 میں اسے عوامی اسٹیج پر پیش کیا۔امانت کے ڈرامہ ’’اندر سبھا‘‘ کے متعلق مسعود حسن رضوی ادیب نے کہا ہے کہ

’’ اندر سبھا اردو کا پہلا ڈراما نہیں ہے لیکن اس سے اس کی تاریخی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی ، وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو عوامی اسٹیج کے لیے لکھا اور کھیلا گیا۔ وہ پہلا ڈراما ہے جس کو عام مقبولیت نے ملک میں شہر شہر اور اودھ میں گاؤں گاؤں پہونچا دیا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو چھپ کر منظر عام پر آیا اور سینکڑوں مرتبہ شائع ہوا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو نا گری، گجراتی اور مراٹھی خطوں میں چھاپا گیا ۔ اندر سبھا کی کامیابی اور شہرت کو دیکھتے ہوۓ اس طر ز پر کئی ڈرامے لکھے گئے۔ ڈرامہ لکھنؤ سے نکل کر دوسرے شہروں ہی نہیں بلکہ دیہات تک میں پہنچ گیا۔اندر سبھا کی بدولت کئی تھئیٹریکل کمپنیاں ( ناٹک کمپنیاں ) وجود میں آئیں۔ اردو ڈرامے کا دوسرا اہم مرکز بمبئی تھا۔اردو ڈرامے پر مغربی اثرات نے اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ اردو ڈراما پارسی ارباب ذوق کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ انھوں نے اردو ڈرامے کی قابل قدر خدمات انجام دیں۔ ڈرامے کے فن سے دلچسپی اور مالی منفعت کے پیش نظر پارسیوں نے بڑی بڑی تھیٹریکل کمپنیاں قائم کیں جن کے اپنے ڈراما نگار، ڈائر کٹر اور کام کرنے والے ہوتے تھے۔ زیادہ تر ڈراموں کا موضوع وفاداری، سچائی اور شرافت ہوتا تھا اور ان کے قصے دیومالا، قرون وسطی کی داستانوں اور شیکسپیر کے ڈراموں پر مبنی ہوتے تھے۔

اردو میں ڈراما نگاری کا آغاز و ارتقا

انیسویں صدی کے آخر تک ڈرامے کے فن کو نہ تو سنجیدگی سے محسوس کیا گیا اور نہ اسے سراہا گیا۔ اس زمانے میں اردو اسٹیج پر منشی رونق بنارسی، حافظ عبداللہ ، نظیر بیگ اور حسینی میاں ظریف چھاۓ ہوۓ تھے۔

منشی رونق بنارسی پارسی وِکٹوریہ تھیٹریکل کمپنی کے خاص ڈرامہ نگار تھے۔


اردو میں ڈرامہ نگاری کی روایت بیسویں صدی کے آغاز پارسی وِکٹوریہ تھیٹریکل کمپنی

بیسویں صدی کے آغاز میں پارسی تھیٹر میں بعض ایسے ڈراما نگار شامل ہو گئے جنھوں نے اردو ڈرامے کی روایت کو آگے بڑھایا اور اس میں چند خوش گوار اور صحت مند تبدیلیاں لا کر اسے نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ ڈرامے کے معیار کو بلند کیا۔ اسے معاشرتی موضوعات اور سنجیدہ عناصر سے روشناس کرایا اور کسی حد تک فنی شعور کا ثبوت دیا۔

اردو کے مشہو ڈراما نگار

اس دور کے ڈراما نویسوں میں ونائک پرشاد طالب بنارسی، مہدی حسن، احسن لکھنوی اور پنڈت نرائن پر شاد بیتاب بنارسی کے نام قابل ذکر ہیں۔

اردو میں ڈرامہ نگاری کی روایت اور طالب بنارسی

طالب بنارسی نے اپنے ڈراموں میں نظم سے زیادہ نثر کا استعمال کیا۔ طالب وہ پہلے ڈراما نگار ہیں جنھوں نے ہندی میں گیت نہ لکھ کر اردو میں لکھے اور یہ ثابت کر دیا کہ آسان اردو میں بھی گیت لکھے جا سکتے ہیں۔ طالب کے ڈراموں میں ’’نگاہ غفلت ‘‘ ’’ گوپی چند‘‘ ’’ہریش چندر ‘‘ اور ” لیل و نہار ‘‘ مشہور ہوۓ۔ ان میں سب سے زیادہ مقبول اور اہم ڈراما’’ لیل و نہار ‘‘ ہے ۔

اردو میں ڈرامہ نگاری کی روایت احسن لکھنوی

ابھی اسٹیج پر طالب کے ڈراموں کی گونج ختم نہ ہونے پائی تھی کہ احسن لکھنوی اسٹیج پر چھاگئے۔انھوں نے سب سے پہلے اپنے نانا مرزا شوق لکھنوی کی مثنوی ’’زہر عشق " کو ‘‘ ’’ دستاویز محبت ‘‘ کے نام سے ڈرامے کی صورت میں 1897ء میں پیش کیا۔ احسن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے شیکپیر کے ڈراموں کو اردو قالب میں ڈھال کر فن ڈراما نگاری کو ایک نیا موڑ دیا۔ ان کے ڈراموں میں ’’ چند راؤلی ‘‘ ’’ خون ناحق ‘‘ عرف مار آستین (ہیملٹ) بزم فانی (رومیو جولیٹ) ’’ دلفروش (مر چلا آف وینس ) بھول بھلیاں ( کامیڈی آف ایر رز ) " اور ’’ اوتھیلو‘‘ بہت مشہور ہوۓ۔

ڈرامے کی زبان اور نظم و نثر

احسن نے ڈرامے کی زبان اور نظم و نثر دونوں کو نکھارا اور سنوارا، مکالموں کو دلکش بنایا اور انھیں ادبی رنگ و آہنگ بخشا، بیتاب نے اردو، ہندی دونوں زبانوں میں ڈرامے لکھ کر اپنی صلاحیت کے جوہر دکھاۓ اور خوب شہرت حاصل کی۔ ان کا پہلا ڈراما ’’ قتل نظیر ‘‘ہے جو 1910ء میں الفریڈ تھیئٹر یکل کمپنی نے اسٹیج کیا۔

بیتاب کے ڈراموں میں ’’قتل نظیر ‘‘ ’’ زہری سانپ ‘‘’’ گورکھ دھندا ‘‘’’ امرت ‘‘’’ میٹھا زہر ‘‘ ’’ شکنتلا ‘‘ ’’مہابھارت ‘‘ ’’ رامائن ‘‘ اور ’’ کر شن سد اما ‘‘خاص شہرت کے مالک ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مذکورہ بالا ڈراما نویسوں نے اردو ڈرامے کی ترقی اور اسٹیج کی آراستگی میں قابل قدر کار نامے انجام دیے لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ڈراما نگاروں کے یہاں فنی مہارت اور تدبیر کاری کی خامی پائی جاتی ہے۔ اس خامی کو بڑی حد تک دور کرنے والے ڈراما نگار ہیں آغا حشر کاشمیری جنھوں نے اپنے تخلیقی شعور اور جدت پسند طبیعت کی بدولت اپنے دور کی ڈراما نگاری کی پامال روش سے بلند ہو کر فنی ارتقا کی اعلی کاریگری کے نمونے پیش کیے اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک مخصوص دور کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی اپنے پیش روؤں اور ہمعصروں میں سب سے زیادہ ممتاز ہیں۔

urdu-mein-drama-nigari-ki-riwayat-urdu-drama-ka-aghaz-o-irtiqa


1921 سے 1930 کے دوران قومی سیاست مختلف طرح کے نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔ اس دور میں وطن کی محبت، قوم دوستی اور آزادی کے احساسات زیادہ نمایاں رہے ہیں۔ چنانچہ سیاسی سر گرمیوں کے دوران اس عہد میں ایسے ڈرامے لکھے گئے جس کے اندر اس طرح کے احساسات موجزن رہے۔ اس عہد میں ڈراموں میں فکر کی بصیرت تو آئی لیکن اس کی اسٹیجی صلاحیت کم ہو گئی۔

اور اسی لئے اسٹیج کے ڈراموں کا ارتقا اپنے فطری مراحل کو سلامتی کے ساتھ لئے نہیں کر سکا۔ آغا حشر کاشمیری کے ’’رستم و سہراب‘‘، امتیاز علی تاج کے ’’انار کلی‘‘ ، ڈاکٹر عابد حسین کے ’’پردہ غفلت اور ڈاکٹر محمد حسن کے ’’ضحاک‘‘ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ جس طرح اردو ناول اور افسانے میں ہندوستان کی معاشرتی، اخلاقی اور تہذیبی زندگی کی مصوری کی جاتی رہی اردو ڈرامہ اس نوعیت کی مصورانہ پیش کش سے قاصر رہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے