Ticker

6/recent/ticker-posts

ہمالہ نظم کی تشریح | علامہ اقبال کی نظم ہمالہ کا تنقیدی جائزہ

ہمالہ نظم کی تشریح | علامہ اقبال کی نظم ہمالہ کا تنقیدی جائزہ

علامہ اقبال کی مشہور زمانہ نظم ہمالہ مجموعہ بانگ درا کی پہلی نظم ہے۔ یہ نظم اس وقت کا مشہور ادبی رسالہ مخزن شیخ عبدالقادر مئی 1901 میں شائع ہوئی۔ اقبال کی یہ نظم مسدس کی ہیئت میں ہے جو آٹھ بندوں پر مشتمل ہے۔ دراصل بانگ درا کی پہلی پانچوں نظمیں اسی بیت (مسدس) میں تخلیق کی گئی ہیں۔ ان کے عنوانات ہمالہ، گل رنگیں، عہد طفلی، مرزا غالب اور ابر کو ہسار ہیں۔

بانگ درا کی پہلی نظم ہمالہ علامہ اقبال



ہمالہ نظم کی تشریح | نظم ہمالہ کا خلاصہ

نظم ہمالہ کا پہلا بند
اے ہمالہ ! اے فصیل کشور ہندوستان۔ حلِ لغات : ہمالہ برف کا گھر۔ ایک مشہور پہاڑ کا نام جو ہندوستان کے شمال میں تقریبا پندرہ سو میل تک کئی سلسلے پھیلے ہوۓ ہیں اور ایک مضبوط دیوار کی صورت میں کھڑا ہے۔ اس کی برفانی چوٹیاں نا قابل عبور ہیں۔ اس کارنگ گہرا و بھورا اور بعض جگہ سفید و سبزہے۔ اس پر بادل چھاۓ رہتے ہیں۔ فصیل / دیوار، خصوصی طور پر دہ دیوار جو قلعے یا شہر کا تحفظ کرے۔ کشور / ملک۔ پیدا / مراد ظاہر ۔ دیر ینہ روزی / لمبی عمر، بڑھا پا، بہت پرانے زمانے کا ہونا۔ جواں ہے مرادجوں کی توں ہے۔ گردش شام و سحرا / گزرنے کا عمل، وقت کا چکر۔ کلیم / حضرت موسی علیہ السلام ۔ طور سینا / وہ پہاڑ جہاں حضرت موسی علیہ السلام کو خدا کا جلوہ نظر آیا۔

نظم ہمالہ کا پس منظر : اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستان

پہلے بند میں علامہ اقبال ہمالہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے ہمالہ ! تو ہندوستان کے تحفظ کی دیوار ہے ۔ تیری بلندی ایسی ہے کہ آسمان بھی سب سے بلند ہونے کے باوجود عظمت و وقعت کے احترام میں جھک کر تیری پیشانی چومتا ہے۔ تیرا وجود روز ازل سے ہے، لیکن تجھ میں قدامت یا بڑھاپے کا کوئی نشان موجود نہیں ہے، تجھ میں کوئی تغیر نہیں ہوا ہے۔ صبح و شام کی گردش کے درمیاں ہنوز تو جوان ہے۔ یعنی تجھ پر زمانے کی گردش کا کوئی اثر نہیں ہے۔ کوہ طور پر موسی علیہ السلام کو صرف ایک تجلی حاصل ہوئی تھی یعنی ایک بار جلوہ نصیب ہوا تھا لیکن یہاں اہل بصیرت کے لیے جلوے ہی جلوے ہیں۔ تیرا وجود قدرت خداوندی پر شاہد ہے۔ پہلے مصرعے میں فصیل کشور ہندوستاں کی ترکیب جغرافیہ و تاریخ کو ایک شعری پیکر میں ڈھالتی ہے ۔ آسمان کا، ہمالہ کی پہاڑی کو جھک کر چومنا علامہ اقبال کی، ہندوستان سے محبت و عقیدت اور ہندوستان کی رفعت و عظمت اور اس کی پاسبانی کی دلیل ہے۔ دوسرے شعر میں تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں صبح و شام کی گردش ہے جو ہر ذی روح کو بوڑھا کر دیتی ہے، لیکن ہمالہ روز ازل سے کھڑا ہے اس پر قدامت کی علامت نظر نہیں آتی۔ یہ پہاڑ ایک قدیم ترین قدرت کا مظہر ہونے کے باوجود اس میں فرسودگی کا کوئی نشان نظر نہیں آتا ۔ کوہ طور پر کوہ ہمالہ کو سبقت دی گئی ہے کہ حضرت موسی کو صرف ایک جلوہ نظر آیا تھا لیکن ہمالہ پر تو خدا کے ہزار ہا جلوے پھیلے ہوئے ہیں۔

بانگ درا کی پہلی نظم : ہمالہ نظم کی تشریح

دوسرا بند : متحانِ دیدہ ظاہر میں کوہستاں ہے توـ حلِ لغات : دیدہ، بیں / بظاہر دیکھنے والی آنکھ ۔ کوہستاں / پہاڑ۔ پاسباں / محافظ ۔ مطلع اول / غزل کا پہلا شعر ۔ سوۓ / طرف۔ خلوت گاہِ دل مراد، تنہائی میں غور و فکر۔ دامن کش مراد اپنی طرف کھینچنے والا، مائل کرنا۔ دستار فضیلت / بڑائی، عظمت کی پگڑی، مراد عظمت و بزرگی۔ خندہ زن / مراد مذاق اڑارہی ہے یعنی آفتاب کو شرماتی ہے۔ مہر / سورج۔ عالم تاب دنیا کو روشن کرنے والا۔ کلاہ مہر عالم تاب دنیا کو روشن کرنے والا سورج کی ٹوپی۔ ظاہری آنکھوں سے اگر دیکھا جاۓ تو، تو صرف ایک پہاڑ ہے۔ لیکن قدرت کا کمال یہ ہے کہ تجھے ہندوستان کے تحفظ کے لیے بلند کیا ہے۔اس لیے ہم تجھے اپنا پاسبان و نگہبان سمجھتے ہیں ۔ اگر تجھے دیوان قرار دیا جائے تو یہ آسمان اس دیوان کا مطلع ہے۔ تو انسان کا دامن خلوت گاہ کی جانب کھینچتا ہے۔ تیری چوٹیوں پر برف ہمیشہ جما ر ہتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تیرے سر پر فضیلت کی دستار پگڑی باندھی گئی ہے، جو کلام آفتاب کو بھی شرما رہی ہے۔ یہاں شاعر ہمالہ کی عظمت و رفعت کا نقش دل پر جمانا چاہتا ہے۔

اقبال کی شاعری کی اہمیت

تیسرابند : تیری عمر رفتہ کی ایک آن ہے عہد کہن۔ حلِ لغات : عمر رفتہ گزری ہوئی عمر یا زندگی۔ عہد کہن / پرانا، قدیم زمانہ۔ خیمہ زن خیمہ لگاۓ ہوۓ، پڑاؤ ڈالے ہوۓ۔ ثریا / وہ ستارہ جو آسمان پر جھرمٹ یا گچھے کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ سخن، بات۔ سر گرم سخن باتوں میں مصروف۔ پہناۓ فلک/ آسمان کی وسعت، پھیلاؤ۔ چشمہ دامن وادی میں بہنے والا چشمہ ۔ آئینہء سیال

چلتا، بہتا ہوا آ ئینہ یعنی شفاف پانی۔ موج ہوا / ہوا کی لہر۔ اے ہمالہ ! تو ایک عرصہ دراز سے موجود ہے لیکن تیری گزری ہوئی عمر کے بالمقابل پر انا زمانہ صرف ایک لمحے کا احساس دلاتا ہے۔ تیری بلند چوٹیاں ستاروں سے محو گفتگو ہے۔ اگر چہ تو زمین پر ہے لیکن اپنی وسعت و بلندی کی وجہ سے آسمان معلوم ہوتا ہے۔ تیرے دامن سے جو چشمہ نکلا ہے وہ بہتا ہوا آئینہ معلوم ہوتا ہے۔ ہوا کی لہروں کا دامن اس کے لیے ایک رومال کا کام دیتا ہے۔

اس بند میں شاعر نے منظر کشی کی بہترین مثال قائم کی ہے۔ اور ہمالہ کی حقیقی تصویر کشی کی ہے۔ دامن کوہ کے چشمے کو صفائی اور پاکیزگی کے لحاظ سے بہتا ہوا آ ئینہ قرار دینا ایک نادر تشبیہ ہے۔

چوتھا بند : ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے۔ حلِ لغات : ابر/ بادل۔ رہوارِ ہوا، ہوا کا گھوڑا۔ برق، بجلی۔ سرِ کہسارا / پہاڑ کے اوپر ۔ تازیانہ / چابک، کوڑا۔ بازی گاہ کھیل کا میدان۔ دست قدرت قدرت کا ہا تھ ۔ ہائے حیرانی کا اظہار۔ فرط طرب ابے حد خوشی۔ فیل بے زنجیر بغیر زنجیر کا ہاتھی یعنی جس کے پاؤں میں زنجیر بندھی ہوئی نہ ہو۔

اے ہمالہ ! تیرے دامن میں جو ہوائیں چلتی ہیں وہ گویا سرپٹ دوڑتے ہوۓ گھوڑے (راہوار) ہیں اور تجھ پر جو برق کوندتی رہتی ہے، وہ ان گھوڑوں کے لئے چابک کا کام دیتی ہے۔اے ہمالہ ! تو بھی کوئی کھیل کا میدان ہے، جو تجھے دست قدرت نے عناصر اربعہ ( ہوا، پانی، مٹی، آگ) کے لیے پہاڑ کی شکل میں کھیل کود کا میدان بنایا ہے۔ ہاۓ، تیرے دامن میں بادل خوشی کے جوش میں کس طرح جھومتا جا رہا ہے۔ جیسے فیل بے زنجیر یعنی کسی ہاتھی کے پاؤں سے زنجیر نکال دی گئی ہو۔

پانچواں بند جنبشِ موج نسیم صبح گہوارہ بنی۔ حلِ لغات: جنبش موج نسیم صبح مسیمِ صبح کی موج کی لہر۔ گہوارہ/ جھولا۔ نشہ، ہستی زندگی کی مستی۔ زبانِ برگ /پتے کی زبان۔ گویا بولنے والی، کہنے والی۔ دست گل چیں/ پھول توڑنے والے ہاتھ ۔ کنج خلوت خانہ قدرت قدرت کی تنہائی کا گوشہ ۔ کاشانہ / گھر، ٹھکانہ۔

تیرے دامن میں جو باغات ہیں ان میں جو مختلف النوع کلیاں کھل رہی ہیں ان کو صبح کی آہستہ رو ہوا، جھولا جھلاتی ہے ۔ یہ کلیاں زندگی کی نشہ آور کیفیت میں جھوم رہی ہیں۔ یہ کلیاں یہاں بڑے سکون اور بے فکری کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے انہوں نے آج تک کسی گلچیں کے ہاتھوں کی جھٹک تک محسوس نہیں کی۔ ہر کلی گو یا کہہ رہی ہے کہ قدرت کے خلوت خانے کا گوشہ میرا گھرا ٹھکانہ ہے۔ یعنی کہ میرا گھر اتنی بلندی پر ہے کہ وہاں تک کسی گلچیں کی رسائی ممکن نہیں۔

چھٹابند : آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی۔ حل لغات : فرازِ کوہ پہاڑ کی چوٹی، بلندی۔ کوثر و تسنیم بہشت کی دو نہر یں، ندیوں کے نام۔ شاہد قدرت/ قدرت کے گواہ، مراد محبوب ۔ سنگ راہ / راستے کا پتھر ۔ گاہ / کبھی۔ عراقِ دل نشیں ایرانی موسیقی کی راگنی، ایک ٹھاٹھ کا نام جس میں کئی راگنیاں ہوتی ہیں، مراد دل میں اثر پیدا کرنے والی را گنی۔ ندی پہاڑ کی چوٹی سے گاتی ہوئی آ رہی ہے۔ اس کا پانی اتنا صاف و شفاف ہے کہ کوثر و تسنیم کی موجوں کو بھی شرما رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ قدرت کے سامنے آئینہ پیش کر رہی ہے جس میں ارد گرد کی چیزوں کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ چلتے چلتے وہ کبھی راستے کے پتھر سے بچ نکلتی ہے اور کبھی ٹکڑا جاتی ہے ۔ اے لہراتی اور بل کھاتی ہوئی ندی ! تیری طرح میرا دل بھی نغموں سے لبریز ہے ۔ اس لیے تو دل میں گھر کرنے والے راگ چھیٹر تی جا۔ دل تیری آواز کو خوب سمجھ رہا ہے۔

ساتواں بند : لیلی شب کھولتی ہے آ کے جب زلف رسا۔ حلِ لغات : لیلی شب / رات کی لیلی یعنی رات کی سیاہی۔ زلف رسا لمبی اور گھنی زلفیں / مراد رات کی تاریکی۔ دامن دل کھینچنا / دل کو خوب لبھانا۔ تکلم گفتگو، بات چیت۔ تفکر غور و فکر ۔ شفق صبح و شام کی سرخی، عموما شام کی سرخی مراد ہوتی ہے۔ غازہ / ابٹن، سرخی۔ رخسار / گال خوش نما بھلا، اچھا۔ جب تیری فضاؤں میں شام پڑتی ہے اور رات طاری ہو جاتی ہے اور شب کی لیلی جب اپنی لمبی اور گھنی زلفیں کھول دیتی ہے تو آبشاروں کی آواز دل کا دامن کھینچنے لگتی ہے۔ یعنی آبشاروں کی صدا دل کش اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے۔ شام کی خامشی اتنی دل پذیر معلوم ہوتی ہے کہ جس پر گفتگو یا گویائی قربان کرنے کو جی چاہتا ہے۔ درخت خاموشی کے عالم میں ایسے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں جیسے کوئی فلسفی کسی فکر میں ڈوبا ہوا ہو۔ جب شام کا سورج تمہارے عقب میں غروب ہونے لگتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ رنگ شفق بھی ایک سرخ رنگ کا پاؤڈر ہے اور یہ غازہ، سرخی تیرے رخسار پر نہایت خوش نما لگتا ہے۔ اس بند کی خاص بات، کہساروں پر رات کی خاموشی کے علاوہ وہ تشبیہ ہے جو علامہ اقبال نے رخسار کوہسار پر شفق کی سرخی سے دی ہے ۔ شام ہوتے ہی لیلی شب، اپنے بناؤ سنگھار میں مصروف ہو جاتی ہے، ندی آئینہ بن جاتی ہے اور شفق کی سرخی غازہ ہو جاتی ہے اور رات کی سیاہی کا تیل کا کام دیتی ہے۔

آٹھواں بند : اے ہمالہ ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا۔حلِ لغات مسکن / رہنے کی جگہ ۔ آباۓ انسان / انسان کے آباء و اجداد۔ رنگ تکلف / بناوٹ کا رنگ۔ تصور کسی چیز کی صورت ذہن میں آنا۔ گردش ایام زمانہ یا دن رات کا چکر۔

اے ہمالہ ہمیں اس وقت کی کوئی داستاں سنا جب تیرے دامن میں ہمارے آبا و اجداد نے پہلے پہل رہنا شروع کیا تھا۔ اس سیدھی سادی زندگی کی کہانی سناجب تو تصنع و تکلف کے داغ سے بالکل پاک تھا۔ اے تصور ! پھر وہ صبح و شام ہمارے سامنے لے آ جو پرانے زمانے پر مبنی ہے۔ یہ اردو کی پہلی نظم ہے جس میں ہمالہ کو وطن کی تہذ یبی قدامت و عظمت کی مقدس علامت قرار دے کر وطنیت کے جذبے کو ابھارا گیا ہے۔ اس نظم سے ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے ہمالہ کے متعلق جو کچھ بھی لکھا ہے وہ صرف اور صرف اپنے زور تخیل سے لکھا ہے جس میں فلسفہ، منطق، تاریخ، جغرافیہ ادبیات اور عمرانیات سنت کی جھلک بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس نظم میں حب الوطنی، منظری کشی اور تاریخ کے احساسات دیدنی ہیں۔ پہلا بند موضوع کا جامع تعارف اور شاعر کے خیالات و جذبات کا بہترین اظہار ہے۔ الغرض نظم " ہمالہ " کا ارتقاۓ خیال مسلسل ہے اور مختلف بندوں کے درمیان ایک ترتیب ہے، ساتھ ہی ہر بند کے مصرعے اور اشعار ایک دوسرے کے ساتھ مربوط و منسلک ہیں ۔ یہ نظم لفظیات و تراکیب اور تشبیہات کا مرقع ہے۔ انھوں نے روایتی اور کتابی تشبیہات و استعارات اور تلمیحات کے علاوہ بعض فطری اور لطیف تشبیہات سے بھی مصوری اور تمثال نگاری کا کام لیا ہے۔ لفظی پیکر تراشی اور منظر نگاری اتنی شان دار اور جان دار ہے کہ ہمالہ کی ایک ایک تصویر مکمل جزئیات کے ساتھ آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے اور روح سرشار ہو جاتی ہے۔ استعارہ سازی اور تمثیل کاری اپنی مثال آپ ہے ۔ موسیقی و ترنم کے ساتھ ساتھ سلاست و روانی اور خیالات کی دل کشی بھی خوب سے زبان وہاں کی سادگی اور اسلوب کی جدت طرازی قابلِ رشک ہے۔

Allama Iqbal ki Nazam Himalaya Ki Tashreeh

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے