میر تقی میر کی حالات زندگی | میر تقی میر کی شاعری کی خصوصیات | میر کی غزل کا تنقیدی جائزہ
میر تقی میر کا اصلی نام محمد تقی اور تخلص میر تھا۔ ان کے والد کا نام محمد علی تھالیکن صوفی منش انسان اور متقی و زاہد ہونے کی وجہ سے علی متقی کہلائے۔ میر کی پیدائش 23/1722 میں آگرہ میں ہوئی اور انتقال لکھنو میں 1780 میں ہوا۔ میر کی ابتدائی تعلیم و تربیت ان کے والد کے دوست سید امان اللہ کے زیر سایہ ہوئی۔ ان کے انتقال کے بعد خودان کے والد نے یہ ذمہ داری سنبھالی، لیکن ان کے والد بھی چند ماہ بعد اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ میر کی پرورش تصوف و معرفت کے ماحول میں ہوئی۔ خود ان کے والد محمد علی معروف به علی متقی صوفی منش اور درویش صفت انسان تھے جو انھیں تصوف کا ہمیشہ درس دیا کرتے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد ہی سے ان کی زندگی میں حزن و یاس کا ایک ایسا طویل سلسلہ شروع ہوا جو تادم حیات دامن گیر رہا۔
Meer Taqi Meer Biography Halat e Zindagi in Urdu
والد کے انتقال کے بعد سوتیلے بھائی کے ناروا سلوک سے دل برداشتہ ہو کر تلاش معاش کی فکر میں دہلی کو اپنا مسکن بنایا۔ وہاں خان آرزو کے یہاں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن ان کے بھائی کی وجہ سے یہ سلسلہ دراز نہ ہو سکا اور لکھنو کا رخ کیا۔ وہاں بھی ان کی حالت کوئی خاص اچھی نہیں رہی اور مایوسی ہاتھ آئی۔
میر کے بارے میں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ وہ انتہائی انا پرست انسان تھے اور بد دماغی کا یہ عالم تھا کہ ناک مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں خود کو اس طرح محصور کیے رہتے تھے کہ کھڑ کی سے باہر جھانکنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے تھے۔
Meer Taqi Meer Ki Shayari Ki Khususiyat In Urdu
میر نے غزل کے علاوہ دیگر اصناف سخن اور ہیئتوں مثنوی، رباعی، مخمس، واسوخت اور مستزاد میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن وہ غزل گوئی کے لیے بے حد معروف و مقبول ہوۓ اور ان کی مثنویوں کو جدت و ندرت کی وجہ سے شہرت ملی۔
میر تقی میر کو بیشتر ادبا و شعرا نے "خدائے سخن " کہا ہے۔ اردو کے معروف و مشہور شعرا نے میر تقی میر کو استاد تسلیم کیا ہے اور ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف بھی کیا ہے، جن کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں :
’’سودا تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میر سے استاد کی طرح‘‘
’’ ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا‘‘
’’ غالب اپنا عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں‘‘
’’میر کارنگ بر تنا نہیں آساں اے داغ
اپنے دیواں سے ملا دیکھئے دیواں ان کا‘‘
’’نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا‘‘
’’حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالب کا معتقد ہے مقلد ہے میر کا‘‘
’’شاگرد ہیں ہم میر سے استاد کے
راسخ استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا‘‘
’’گو کہ تو میر سے ہوا بہتر
مصحفی پھر بھی میر، میر ہی ہے‘‘
’’شبہ نائخ نہیں کچھ میر کی استادی کا
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں‘‘
’’شعر میرے ہیں پر درد و لیکن حسرت
میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں‘‘
’’اقبال کی نوا سے مشرف ہے گو نعیم
اردو کے سر پر میر کی غزلوں کا تاج ہے‘‘
میر تقی میر کے معاصرین میں مرزا محمد رفیع سودا اور خواجہ میر درد کا نام سر فہرست ہے۔
سودا نے قصیدہ کو وسعت عطا کی، فارسی کے مستند قصیدہ نگاروں مثلا خاقانی، انوری اور عرفی کی زمینوں میں قصیدے کہہ کر اس صنف کو بام عروج پر پہنچایا۔ خواجہ درد نے متصوفانہ افکار و خیالات اور تصوف کے مختلف نکات کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ میر کا زمانہ سیاسی افرا تفری اور سماجی انتشار کا ہے۔ احمد شاہ ابدالی و نادر شاہ کے حملوں، اور سکھوں و مرہٹوں کے ہنگامے نے ملک میں انتشار اور بدامنی پھیلا دی تھی۔
میر کی شاعری ان کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک میں پھیلی بدامنی، انتشار، افرا تفری اور سیاسی، سماجی و اقتصادی تبدیلیوں کی بھی عکاس ہے۔
محمد حسین آزاد نے " آب حیات " میں لکھا ہے کہ اگر کوئی دلی کی تاریخ پڑھنا چاہے تو وہ " دیوان میر " پڑھ لے۔ میر کی غزلوں میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو اس دور کی شاعری کے امتیازات ہیں۔ غزل کے لیے جس سوز و گداز کو لازمی قرار دیا گیا ہے وہ میر کی غزلوں کا نمایاں وصف ہے۔ ان کی غزلوں میں پایا جانے والا سوز و گداز اس دور کے سماجی و سیاسی حالات کی پیداوار ہے۔ میر نے غزلوں میں ذاتی زندگی کے احوال و کوائف کو کائناتی بنا کر بہت ہی موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری کو آپ بیتی و جگ بیتی کا حسین مرقع کہا جاتا ہے۔ میر نے اپنی شاعری میں عشق و عاشقی کی مختلف کیفیات و احساسات کو شدت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ان کی غزلوں میں پیش کردہ عشق کے تصورات و مضمرات اس دور کے سیاسی و سماجی حالات سے مکمل طور پر مطابقت رکھتے ہیں۔ عشق کی ترجمانی میں میر کی انفرادیت ان کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ انھوں نے جو کچھ محسوس کیا، اس کی من و عن ترجمانی کی۔ اس لیے ان کی غزلوں میں تکلف و تصنع نہیں ملتا۔ میر نے افکار و خیالات اور جذبات و احساسات کی ترجمانی میں روایتی انداز کی یکسانیت اور یک رنگی ختم کی۔ ان کی غزلوں میں زندگی اور اس کے مختلف پہلووں کے متعلق واضح تصورات پاۓ جاتے ہیں۔ زندگی کے شدید احساس اور حالات سے مطابقت نے ان کی شاعری میں حقیقت و واقعیت کے تصور کو عام کیا۔ میر نے اپنی غزلوں میں تصوف کے مختلف افکار و خیالات اور اس کے مختلف مسائل کو پیش کیا ہے۔ حیات و کائنات کے مسائل کی ترجمانی کا فلسفیانہ رجحان سب سے قبل ان کے یہاں ہی ملتا ہے۔ میر نے زندگی کی بے ثباتی کو شدت سے محسوس کیا اور مختلف انداز، کیفیات اور زاویوں سے ان کی ترجمانی کی ہے۔
اس کی پیش کش میں میر کی اس ذہنی کیفیت کو بھی دخل ہے جو تمام تر ایک انحطاط پزیر اور زوال آمادہ سماجی ماحول کی پیداوار ہے۔
میر کو بچپن ہی سے تصوف کی تعلیم دی گئی تھی۔ تصوف ان کے مزاج میں رچ بس گیا تھا۔ اسی لیے ان کی شاعری میں تصوف کے اشعار کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
میر کی غزلوں میں داخلیت کے ساتھ ساتھ خارجیت کا پہلو بھی نمایاں ہیں۔ ان کی غزلوں میں معاملات حسن و عشق، متصوفانہ رنگ و آہنگ، حقیقی و مجازی محبت کا حسین امتزاج، در دو غم کا بیان آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہو گئی ہے۔
میر نے مشکل زمینوں اور سخت قافیوں سے خود کو بچایا ہے۔ انھوں نے جو بحر یں استعمال کی ہیں وہ بھی بہت سبک شیر یں اور ترنم و موسیقی کے مزاج سے مناسبت رکھنے والی ہیں۔ ایجاز واختصار، الفاظ کی تکرار، محاورے اور لفظی رعایتوں کا استعمال، سادگی و سلاست، رنگینی و شیرینی، بے پناہ بر جستگی، سہل ممتنع، تشبیہات و استعارات کا فن کارانہ استعمال، زبان کی پاکیزگی، موثر اسلوب، فارسی کے ساتھ ساتھ ہندی الفاظ کا استعمال ان کی شاعری کے امتیازات ہیں۔ میر کی شاعری دل اور دلی کا مر ثیہ ہے اور اس عہد کی منھ بولتی تصویر ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق میر کی مثنویوں کی تعداد 9 3 انتالیس ہے۔ میر نے چار قسموں کی مثنویاں تخلیق کی ہیں : عشقیہ، واقعاتی، مدحیہ اور ہجویہ۔ ان میں عشقیہ مثنویوں کو شہرت ملی۔
بیشتر مثنویاں عشق کی مختلف کیفیات کا احاطہ کرتی ہیں۔ انھوں نے مثنوی " خواب و خیال " میں ابتدائی زندگی اور آگرہ سے ہجرت کا بیان نظم کیا ہے۔ مثنوی " معاملات عشق میں اپنی حیات معاشقہ کے کچھ پہلووں کو اجاگر کیا ہے۔ اس میں تاریخی واقعات کی جانب بھی اشارے ملتے ہیں۔ کسی میں گھر یلو حالات تو کسی میں ہجو بیان کیا ہے۔ الغرض ان کی مثنویوں میں بھی سماجی، سیاسی، تہذیبی اور تاریخی آثار نمایا ہیں۔
مثنویوں میں ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے مثنوی کو داستانی ماحول کی پر اسرار فضا سے نکال کر عام زندگی کا عکاس بنایا۔
میر کی مشہور مثنویوں کے نام یہ ہیں : خواب و خیال، دریاۓ عشق، اعجاز عشق، معاملات عشق، شعلہء عشق، جوش عشق اور حکایات عشق۔
میر نے اپنی خودنوشت " ذکر میر " کے نام سے تحریر کی ہے۔ میر نے اردو شعرا کا ایک تذ کرہ بھی لکھا ہے، جس کا نام تذکرہ، نکات الشعرا ہے۔ یہ فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔
میر کے چھ دواوین ہیں۔ ان تمام دواوین کو ظل عباس عباسی نے ترتیب دیا تھا۔ بعد میں احمد محفوظ نے ان کی تصحیح و تسوید کے ساتھ مرتب کیا ہے۔
فرہنگ کلیات میر، ڈاکٹر فرید احمد کی مشہور تصنیف ہے۔ میر کی غزلوں میں مستعمل الفاظ کی جامع فرہنگ ہے جو غزلیات میر کی تفہیم میں اہم حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ شعر شور انگیز، چار جلدوں پر مشتمل ہے جو بے حد معروف و مقبول کتاب ہے اور میر کی تفہیم کے لیے دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔اس میں ردیف کے اعتبار سے منتخب غزلوں کی تعبیر و تشریح پیش کی گئی ہے۔ جدیدیت کے سرخیل شمس الرحمان فاروقی کی تصنیف ہے۔
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے