Ticker

6/recent/ticker-posts

مومن کی غزل گوئی | حکیم مومن خان مومن کی شاعری کی فنّی خصوصیات

مومن کی غزل گوئی |حکیم مومن خان مومن کی شاعری کی فنّی خصوصیات

مومن کی شاعرانہ خصوصیات پر روشنی ڈالئے۔
مومن خاں مومنؔ کی شاعری اردو شاعری کی دنیا میں ایک ممتاز اور منفرد مر تبہ رکھتی ہے۔حکیم مومن خاں مومنؔ نے اردو غزل کو خالص تغزل کا انداز بخشا ہے۔ تغزل اس انداز کو کہتے ہیں جس میں عاشقانہ مضامین پاۓ جاتے ہیں۔ عشق کے مختلف کیفیات اور اپنی رنگارنگی کے سبب غزل، شاعر کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ چنانچہ مومن نے انھی کیفیات کے اظہار کا وسیلہ غزل کو بنایا ہے اور غزل گو شعراء میں اپنا ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مومن کی غزلوں میں تہہ داری ہے نہ فکر کی پیچ در پیچ فلسفانہ انداز ہے، نہ متصوفانہ خیالات کی گل ریزی، نہ تخیل کی بلند پروازی ہے نہ آفاقیت کی گل کاری۔ اس کے باوجودان کے یہاں ایک مخصوص طر زادا ہے ، تغزل اور فن کارانہ آہنگ ہے ، جذبے کی بالیدگی ہے اور جذبات کی شدت ہے، جس سے غزل ، غزل بنتی ہے۔ مومن کا یہ بہت بڑا کمال ہے کہ فلسفہ و حکمت اور مسائل کائنات کا بیان نہیں کرنے کے باوجود وہ ایک شاعر ہیں اور صرف شاعر نظر آتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کے یہاں وسعت اور ہمہ گیری نہیں رہنے کے باوجود ایک جولانی کی فضا ملتی ہے ۔ ان کے یہاں عشق کا جو فلسفہ ملتا ہے وہ نہ تو افلاطونی اور نہ ماورائی بلکہ سراسر گوشت پوست والا ہے جس میں انسانی جسم کی مہک رچی بسی ہے اور جس میں دنیاوی فضا کا احساس ملتا ہے۔

مومن خاں مومنؔ کی شاعری میں پردہ نشیں کا ذکر

مومن کی غزلوں میں ایک پردہ نشیں کا ذکر بار بار ملتا ہے جو صنف نازک سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سے چھیڑ چھاڑ، اسے عہد و پیماں کی یاد دلانا، کبھی اس سے مومن کا روٹھ جانا اور دوسرے سے دل لگانے کی دھمکی دینا اور کبھی اس سے راہ و ر سم عاشقی نبھانے کی قسم کھانا اور اس کے شوق دید میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل جانا، کبھی اس کی جدائی میں خود آنسو بہانا اور کبھی محبوب کو آنسو بہانے پر مجبور کر دینا، کبھی اس کے حسن کا بیان شگفتہ انداز میں کر نا اور کبھی تنہائی میں محبوب سے مصروف گفتگور ہنا اور اس کی نزاکت خیال ، نفاست جذبات اور کبھی اس کی آواز پر جان دینا، یہی سب مضامین ہے جس کا بیان مومن خاں مومنؔ کی غزلوں میں ملتا ہے۔

مومن خاں مومنؔ کی شاعری

’’ہجر پردہ نشیں میں مرتے ہیں‘‘
’’ زندگی پر دوہ در نہ ہو جاۓ‘‘

’’کس وقت کیامر دمک چشم کا شکوہ‘‘
’’اے پردہ نشیں ہم تجھے رسوانہ کر یں گے‘‘

’’ اب یہ صورت ہے کہ اے پردہ نشیں‘‘
’’ تجھ سے احباب چھپاتے ہیں مجھے‘‘

’’ غیروں پہ کھل نہ جاۓ کہیں راز دیکھنا‘‘
’’میری طرف بھی غمزۂ نماز دیکھنا‘‘


مومن خاں مومنؔ کی شاعری کا کمال

لیکن یہ مومن خاں مومنؔ کا کمال ہے کہ اس بیان میں نہ فحاشی ہے اور نہ ابتذال ، نہ رکاکت ہے اور نہ مریضانہ ذہنیت، بلکہ رکھ رکھاؤ ہے ، توازن اور ہمواری ہے ۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ان تمام جذبات و کوائف کو انھوں نے اردو فن کے قالب میں ڈھال دیا ہے اور انھیں تغزل کار نگ دے دیا ہے ۔ المختصر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مومن نے اردو غزل کو بہت بڑا فکری سرمایہ نہیں دیا لیکن پھر بھی غزل ان کے یہاں پہنچ کر خالص مجازی حسن و عشق کا بیان، جمالیاتی شعور کی نمائند گی، ناز کی خیال کا اور ژرف بینی کا منبع بن گئی ہے اور زندگی کا درس دینے لگی ہے۔ مومن نے حقیقی معنوں میں غزل کو غزل بنادیا ہے ۔ جس میں انسانی دل کی دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے ۔اردو کے چند غزل گو شعراء میں بھی مومن ایک امتیازی شان رکھتے ہیں۔

مومن کی غزل گوئی |حکیم مومن خان مومن کی شاعری کی فنّی خصوصیات


اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے