Ticker

6/recent/ticker-posts

فیض احمد فیض کے حالات زندگی، ادبی خدمات، فیض احمد فیض کی شاعری کا جائزہ

فیض احمد فیض کے حالاتِ زندگی، ادبی خدمات، فیض احمد فیض کی شاعری کا جائزہ

فیض احمد فیض کا اصل نام فیض احمد خاں تھا۔ ان کے والد خان بہادر سلطان احمد خان ایک بیر سٹر تھے۔ وہ میر منشی امیر عبد الرحمان خان، افغانستان اور سفیر افغانستان اور لندن رہ چکے تھے۔فیض کی والدہ کا نام سلطانہ فاطمہ ہے۔ فیض احمد فیض کی پیدائش سیالکوٹ : 13 فروری 1911 کو ہوئی۔انتقال 20 نومبر 1984 کو ہوا۔

فیض احمد فیض ابتدائی تعلیم

فیض احمد فیض نے ابتدائی اور مذہبی تعلیم مولوی محمد ابراہیم میر سیالکوٹوی سے حاصل کی۔ اس زمانے کے مشہور مقبول استاد شمس العلماء مولوی میر حسن ( یہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے استاد تھے ) سے عربی صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی ( مشہور شارح علامہ اقبال علیہ الرحمہ اور مرزا غالب ) سے اردو کی تعلیم حاصل کی۔ فیض کے کالج کے اساتذہ : احمد شاہ پطرس بخاری صوفی غلام مصطفی تبسم اور مولوی محمد شفیع ہیں اور فیض کے ادبی اساتذہ ڈاکٹر تاثیر مولانا عبدالمجید سالک،مولا نا چراغ حسن حسرت اور ہری چند اختر ہیں۔

Faiz Ahmed Faiz Biography in Urdu

فیض کو انجمن اسلامیہ کے مدرسہ / 1915 میں داخلہ کروایا گیا۔ اس کے بعد اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ/1921 میں ہوا۔ انھوں نے میٹرکٹ اسکاچ مشن اسکول 1927 میں پاس کیا۔ انھوں نے 1931 میں گورنمنٹ کالج لاہور سےعربی میں بی۔ے آنرز کیا، اور اورینٹل کالج، لاہور سے 1933، میں انگریزی زبان میں ایم اے کیا۔

فیض احمد فیض نے 28 اکتوبر/1941 میں ایک انگریزی خاتون کیتھرن جارج ایلیس سے نکاح کیا اور اس کا نام ام کلثوم رکھا۔

فیض کی ملازمت بحیثیت لیکچرار : ایم اے او کالج امر تسر 1935 تا 1940 اور ہیلی کالج لاہور میں 1940 تا 1942 انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوۓ۔

فیض احمد فیض نے محکمہ تعلقات عامہ (دہلی) 1942 فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے بھی ملازمت شروع کی میجر اور پھر لیفٹنینٹ کرنل کے عہدے تک ترقی پائی لیکن 1946 میں مستعفی ہو کر واپس لاہور چلے گئے۔

1942 میں فوجی اعزاز ایم۔ بی ای ملا۔ 1938 سے 1942 تک مشہور و معروف ادبی رسالہ، ماہنامہ " ادبی لطیف " کی ادارت کی۔

فیض نے پاکستان ٹائمنر ار دو روز نامہ، امروز / ہفت روزہ لیل و نہار۔ 1947۔1951 اس کے بعد پھر 1955 تا 1955 ادارت کی۔انھوں نے "لوٹس“ کی بھی ادارت کی۔ وہ حکومت پنجاب لیبر ایڈ وائزری کمیٹی کے کنویز 1947 سے 1951 تک رہے۔ 1951 میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر بنے۔

فیض احمد فیض پاکستان بین الا قوامی مزدور کا نفرنس کے رکن بھی رہے۔ سان فرانسیسکو 1948۔اور جنیوا 1949 سے 1950 1949 -1962 تک پاکستان آرٹس کونسل کے سکریٹری رہے۔اس کے بعد نائب صدر آرٹس کونسل مشیر، امور ثقافت، وزارت تعلیم، حکومت پاکستان۔1972تا 1977 عالمی امن کو نسل کے رکن 1948 تا 1970 رہے۔ وہ 1958 میں اے۔ پی پی ٹرسٹ کے صدر مقرر ہوئے۔

فیض کو راولپنڈی سازش کیس 9 مارچ، 1951 کے تحت گرفتار کیا گیا ( پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا تختہ پلٹنے کے الزام میں ) اور رہائی اپریل 1955 ان کی دوسری گرفتاری دسمبر 1958 اور رہائی 1959 فیض کو سر گو دھا ساہیوال حید رآ باد اور کراچی کی جیلوں میں رکھا گیا۔فیض کو لینن عالمی پیس انعام /1962 میں ملا۔ ایفرو ایشیائی ادبی انجمن کے بنیادی رکن۔1958 ایفرو ایشیائی ادبی لوٹس انعام 1976 میں ملا۔
بیروت میں 1978 1982 قیام کیا۔

فیض ہارون کالج کراچی نائب صدر حاجی عبد اللہ ہارون ٹرسٹ کے پر نسپل بھی رہے۔فیض نے آل انڈیا ریڈیو کے لیے ڈرامے بھی لکھے۔ تصانیف: نقش فریادی/1941۔ دست صبا/ 1952۔ زنداں نامہ/1955۔ دست تہ سنگ 1965/۔ سروادی سینا /1971۔ شام شہر یاراں 1978/مرے دل مرے مسافر۔1980// غبار ایام۔ کلیات : اسارے سخن ہمارے لندن سے شائع ہوا۔ اس کے بعد نسخہ ہائے وفا کے نام سے متعدد ایڈیشن شائع ہوۓ۔ ه میزان ( تنقیدی مضامین کا مجموعہ )/1962۔ صلیبیں مرے دریچے میں ( خطوط کا مجموعہ )1971 متاع لوح و قلم ( تقاریر اور متفرق تحریروں کا مجموعہ ) 1973/ سفر نامہ کیوبا (لندن میں دو سال مقیم رہنے کی روداد) 1973/۔ ہماری قومی ثقافت 1976/ مہ و سال آشانائی ( یادیں اور تاثرات) 1980 / قرض دوستاں( مقدے، دیباچے اور فلیپ )۔منتخب نظموں کے تراجم ہندی بنگالی نیپالی انگریزی عربی/فارسی فرانسیسی روسی ہنگری | جاپانی منگولین چیکوسلوواکیا۔

فیض کی شاعری کا انگریزی ترجمہ

فیض کی شاعری کا پہلا باقاعدہ انگریزی ترجمہ پروفیسر وکٹر کیرنن نے " پوئمس بائی فیض" کے نام سے کیا جو 1962 میں لاہور سے شائع ہوا۔ اس میں انتالیس نظموں کے تراجم شامل ہیں۔ نقش فریادی " کی شاعری کے توسط سے فیض نے ادبی حلقوں اور ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی ایک بڑی اکثریت کو متاثر کیا۔ "دست صبا" کی اشاعت نے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شاعر ادیب اور فنکار کو کافی متاثر کیا اور عام لوگوں میں بھی مقبول بنایا۔ " دست صبا اور زنداں نامہ " ان کے ایام اسیری کی یادگار ہیں۔ جیل سے رہائی کے بعد " زنداں نامہ " شائع ہوا جسے ان کا بہت بڑا ادبی کار نامہ کہا جاتا ہے۔ فیض کا مجموعہ "زنداں نامہ " کا سر آغاز سجاد ظہیر نے لکھا۔اور اس کا مقدمہ و داد قفس کے نام سے سابق میجر محمد اسحق نے لکھا۔

فیض کی شاعری کا آغاز کالج سے ہی ہو گیا تھا

فیض کی شاعری کا آغاز کالج سے ہی ہو گیا تھا۔ فیض کی پہلی نظم " میرے معصوم قاتل" ہے جو کالج کے مجلہ 1929 میں شائع ہوئی۔فیض ترقی پسندوں کے روح رواں مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہایت خلوص، ایمانداری اور فنکاری کے ساتھ اپنے نظریات و رجحانات کو شعری قالب میں ڈھالا ہے۔

فیض کا عہد انقلابی

فیض کا عہد انقلابی و انتشار اور سیاسی و سماجی اتھل پتھل کا تھا۔ قومی و بین الاقوامی سطح پر بالخصوص سیاست میں انقلاب رونما ہو رہا تھا۔ 1939 میں دوسری عالمی جنگ عظیم اور ہندوستان کی تحریک آزادی نے فیض کے اندر بیداری کی روح پھونک دی تھی۔ 1930 میں فسطائیت کے مظالم اور اس کی قوتوں کے خلاف سوشلزم کی حمایت میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے پیش نظر ہندوستان میں ایک کل ہند پہلی کا نفرنس " ترقی پسند ادبی تحریک " کے نام سے منعقد ہوئی۔ یہ پہلی کا نفرنس لکھنؤ اپریل 1936 میں ہوئی، جس کی صدارت پر یم چند نے کی تھی۔ جس میں اس عہد کے بیشتر نامور، ادیب، شعر اور قلم کار شامل ہوۓ۔ فیض اس تحریک کے بانی اراکین میں سے تھے۔اس تحریک سے ان کی وابستگی امر تسر میں ہوئی اور وہ ابتدا ہی سے فعال اور سر گرم رہنے لگے۔ اردو کے جس شاعر کو بر صغیر ہند و پاک اور بیرون ممالک میں یکساں اہمیت دی گئی اور بے پناہ مقبولت و شہرت اور عزت و محبت ملی اور مقبول خاص و عام ہوۓ ان میں فیض احمد فیض کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے جب شاعری کا آغاز کیا تو کئی قد آور شاعر اپنی شاعری سے اردو شعر وادب کے خزینے کو مالا مال کر رہے تھے۔ جوش ملیح آبادی، اختر شیرانی، احسان دانش رومانی شاعری کر رہے تھے۔ دوسری طرف نظم نگاری کے میدان میں اختر الایمان۔ ن، م راشد اور میرا جی اردو نظم کو جدت و ندرت سے ہم کنار کرنے میں لگے تھے۔ حسرت موہانی، فانی بدایونی، جگر مرادا بادی اور ایگانہ چنگیزی غزل کے گیسو سنوار نے میں لگے تھے۔ فیض احمد فیض نے اپنی شاعری کا آغاز خوبصورت اور رومانی فضا میں کیا، فیض کی شاعری میں انقلاب آفریں رومانویت پائی جاتی ہے۔ فیض کے پہلے دور کی شاعری پوری طرح سے رومانی ہے۔ انھوں نے اپنے قوت سے خیالی دنیا بسائی ہے جس میں فیض احمد فیض غم دوراں کی تلخیوں سے مکمل فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ابتدا میں خالص عشقیہ شاعری کی ہے۔ جس کے نمونے ان کے مجموعوں میں جابجا ملتے ہیں۔

فیض کی غزل کامزاج

فیض کی غزل کامزاج عمومآ عاشقانہ ہے جس میں درد و غم اور سوز و گداز اس کی بنیادی صفات ہیں۔ ان کی غزل ایک منفر د روایت کی حامل ہے۔ فیض نے اپنا آئیڈ ل سماجی انصاف کو بنایا ہے۔ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ اور مرکز انقلاب و رومان اور اشتراکیت ہے۔ان کے کلام میں انقلاب و رومان کا سنگم نظر آتا ہے۔ وہ زندگی زندگی سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونے کے خواہاں ہیں۔ ان کی شاعری میں کہیں کہیں محبوبہ اور وطن کے مابین فرق و امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

انھوں نے ترقی پسند نظریات کے اظہار کے لیے سیاسی و مزاحمتی شاعری کی اور ان میں غزل کو فوقیت دی۔ان کے کلام میں محبوب، وطن اور انقلاب آپس میں ہم آہنگ اور غم جاناں و غم دوراں ایک ہی سانچے میں ڈھل گئے ہیں، جس سے ان کی شاعری رومان و انقلاب کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ وہ محبت اور انقلاب کے نعرے ایک ساتھ لگاتے ہیں۔ ان کو اس بات پر یقین تھا کہ جب رومان و انقلاب ایک شاعر کے فن اور ذات میں داخل ہو جاتے ہیں تو ترقی پسند شاعری جنم لیتی ہے۔ انھوں نے حقائق کو غم جاناں بنا کر پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں عشق کا ایک نیا اور الگ تصور ہے۔اس میں انھوں نے اپنے مقصد کو بھی ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی شاعری میں عشق اور انقلاب ایک دوسرے میں کچھ اس طرح پیوست ہو گئے ہیں کہ ایک دوسرے کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی تعبیر و تشریح ہے۔

انھوں نے نہایت خلوص و صداقت اور فن کاری کے ساتھ ترقی پسند نظریات و رجحانات کو اپنی شاعری میں اجاگر کیا ہے۔انھوں نے اشتراکیت کے راستے انقلاب کا خواب دیکھا تھا۔ ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ترقی پسند شاعر ہونے کے باوجود اپنی شاعری کے دامن کو خطیبانہ لب و لہجہ اور انقلابیت سے دور رکھا۔ انھوں نے اس طرح کے مضامین کو بھی تغزل اور سوز و گداز کے پیرائے میں ڈھالا۔ ان کی شاعری میں انقلاب کا تصور قید و بند، دار و رسن اور کشت و خوں سے ہو کر گزرنا ہے۔ان کی شاعری میں جہاں ایک طرف وطن سے محبت دکھائی دیتی ہے وہیں دوسری جانب ملک اور اس میں بسنے والے لوگوں کی زبوں حالی، قسم پرسی، بھوک اور جہالت کی تصویر کشی بھی ملتی ہے۔ فیض پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹنے اور دار ورسن کی منزلوں سے گزرنے کے باوجود ان کے پائے استقلال میں جنبش اور نظریات میں لچک پیدا نہیں ہوئی اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔

فیض طبقاتی نظام کے مخالف اور غیر طبقاتی نظام اور عدل و مساوات کے قائل تھے۔ وہ موجودہ استحصالی نظام سے نفرت کرتے تھے اور اسے بدلنے کے لیے ہمہ تن گوش رہتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ملک کے عوام، ان کے مسائل اور ان کے دکھ درد کو بطور خاص موضوع بنایا، جس سے ان کی شاعری کا سیاسی رنگ اور نکھرتا گیا۔

انھوں نے اپنی شاعری میں خصوصیت کے ساتھ سماجی انصاف اور مساوات کو جگہ دی ہے۔ ان کی شاعری میں معاشرے میں غریب اور مزدور طبقے کے مسائل اور ان کے استحصال کی روداد بھی ملتی ہے۔انہوں نے مزدور، محنت کش، کسان اور دوسرے طبقات کے دکھ درد کی سچی ترجمانی کی ہے۔ اسی لیے مجروح سلطان پوری نے کہا تھا کہ " فیض احمد فیض ترقی پسندی کے میر تھے " سماجی اور اقتصادی عدم مساوات سے معاشرے میں پیدا ہونے والے ان گنت مسائل کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔انھوں نے ان تمام موضوعات کو شاعرانہ حسن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ فیض نے اپنی شاعری میں ترقی پسندی کے اعلی نمونے پیش کیے ہیں۔اور انھوں نے ادب کی جمالیاتی قدروں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔انھوں نے کمال ہنر مندی کے ساتھ ادب کے فنی تقاضوں کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے نہ صرف ملکی حالات و واقعات پر خوں کے آنسو بہاۓ ہیں بلکہ عالمی سطح پر ہونے والے انتشار و خلفشار سے مضطرب رہے اور اس کے تدارک کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے پوری انسانیت کے درد و کرب اور الم کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اور اپنی شاعری میں دیانت داری کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی۔ فلسطین اور بیروت کی بدحال زندگی کی پیش کش ان کے احساسات و جذبات اور سینے میں دردمند دل کو بخوبی در شاتی ہے۔انھوں نے اپنی شاعری کے توسط سے قومی و بین الاقوامی سطح پر امن وامان کی فضا قائم کرنے میں ہر ممکن کوشش کی۔

ان کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے مادی آسائش اور عیش و عشرت کے لیے کبھی بھی ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ وہ ظلم و ناانصافی کے خلاف سینہ سپر ہو کر شاعری کے ذریعے اس کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ دوسری خوبی یہ کہ وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور پابند سلاسل ہونے کے باوجود قلم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔

فیض کی غزلوں اور نظموں میں روایت کی پاس داری
فیض کی غزلوں اور نظموں میں روایت کی پاس داری ملتی ہے۔ انھوں نے فارسی اور اردو کی طویل روایت سے نہ صرف اپنا رشتہ بر قرار رکھا بلکہ ان روایات میں بے پناہ تنوع پیدا کیا۔ جس سے ان کی شاعری انسانی اقدار و روایات، تہذیب و تمدن، شاعرانہ نغمگی اور جمالیاتی وجدان کا حسین امتزاج بن گئی اور جن کو پڑھ کر رگوں میں سرور کی ندیاں بہ جاتی ہیں۔

فیض نے غزل کی معروف روایات کو معاشرتی اور سماجی انصاف سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا ہے اور یہی فیض کے شاعرانہ آرٹ کی انفرادیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سیاسی و احتجاجی شاعری میں بھی سنجید گی، شائستگی، تہذیب، ملائمیت اور سو گداز پایا جاتا ہے۔ یہی خصوصیت انھیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔

نامساعد حالات میں بھی ان کی شاعری میں شکست خوردگی، دھیما پن اور قنوطیت نہیں ملتی بلکہ وہ ان حالات و واقعات سے حرکت و حرارت،، قوت ارادی اور توانائی حاصل کر کے جہل کی آندھیوں اور ظلم کے طوفان میں حق و صداقت کی صدا بلند کرتے ہیں جس کی بازگشت پورے عالم میں سنائی دیتی ہے۔ ان کی شاعری انسانی اقدار و روایات، تہذیب و تمدن کا حسین امتزاج ملتا ہے

انھوں نے شاعرانہ نفس گی اور جمالیاتی آہنگ سے قارئین کی رگوں میں کیف و سرور کی ندیاں بہائی ہیں۔ نرم و شیر یں اور مترنم انداز ان کی شاعری میں جادو جگاتا ہے۔

فیض کی نظموں اور غزلوں کا مطالعہ

فیض کی نظموں اور غزلوں کے بیشتر مصرعے اور اشعار زبان زد خلائق اور ضرب المثل بن گئے ہیں۔ وہ علامتی، رمزی اور ایمائی لفظیات و تراکیب کی قوت و افادیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ وہ اپنے رمزیہ و علامتی اسلوب کے باعث دیگر ترقی پسند شعر اممتاز و منفرد نظر آتے ہیں۔ انھوں نے براہ راست بیانیہ کے بجاۓ علامتی اظہار کا پیرا یہ اختیار کیا اور کامیاب بھی ہوۓ۔ انھوں نے غزل میں نئے رمزی و ایمائی پیکر تراشے ہیں اور قدیم علامات و استعارات سے نئے معانی و مفاہیم پیدا کیے ہیں۔ انھوں نے کلاسیکی شعرا کی شاعری کا مطالعہ کیا اور قدیم رموز، ایما، علامات، استعارات، لفظیات، تراکیب، تشبیہات سے خاطر خواہ فیضیاب ہو کر اپنی شاعری میں نئے معانی و مفاہیم اور امکانات پیدا کیے۔ وہ رمزی و ایمائی لفظیات و تراکیب کی قوت و افادیت سے آگاہ تھے۔ اس لیے کلاسیکی شعری لفظیات و تراکیب کو نئے مفاہیم سے کچھ اس طور سے ہم کنار کیا کہ اس میں تہہ داری پیدا ہو گئی ہے۔ انھوں نے قدیم علامتوں کو نئے معانی کا پیراہن عطا کیا، جن سے ان کا شعری افق وسعتوں سے ہم کنار ہوا۔ فیض کی ادبی و شعری زندگی تقریبا نصف صدی کو محیط ہے۔ اس در میان ان کے آٹھ مجموعہ کلام منظر عام پر آ کر مقبول ہوۓ۔ نثر کے میدان میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھلاۓ۔ ان کی مقبولیت کا آغاز ان کے شعری سفر کے شروع سے ہی ہو گیا تھا۔اور رفتہ رفتہ سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا کا مصداق بن گئے۔ ان کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی میں عمر کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ ان کی مقبولیت میں قید و بند کی زندگی اور انقلاب پسند شاعر ہونے کا بڑا عمل دخل ہے۔ ان کا شمار اردو کے منفرد و ممتاز شعرا میں ہوتا ہے اور ترقی پسند شعرا میں یکتا و یگانہ نظر آتے۔

فیض احمد فیض کا اصل نام کیا ہے؟

فیض احمد فیض کا اصل نام فیض احمد خاں تھا۔

فیض احمد فیض کے والد کا نام کیا تھا

فیض احمد فیض کے والد خان بہادر سلطان احمد خان ایک بیر سٹر تھے۔ وہ میر منشی امیر عبد الرحمان خان، افغانستان اور سفیر افغانستان اور لندن رہ چکے تھے۔

فیض کی والدہ کا نام

فیض احمد فیض کی والدہ کا نام سلطانہ فاطمہ ہے۔

فیض احمد فیض کی پیدائش

فیض احمد فیض کی پیدائش سیالکوٹ : 13 فروری 1911 کو ہوئی۔انتقال 20 نومبر 1984 کو ہوا۔


Faiz Ahmed Faiz Biography in Urdu



اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے