Ticker

6/recent/ticker-posts

جوش ملیح آبادی کی حالاتِ زندگی اور شاعری کی خصوصیات | جوش ملیح آبادی کی نظم نگاری کا جائزہ

جوش ملیح آبادی کی حالاتِ زندگی اور شاعری کی خصوصیات | جوش ملیح آبادی کی نظم نگاری کا جائزہ

جوش ملیح آبادی کا اصل نام شبیر احمد خاں تھا، لیکن 1907 میں انھوں نے نام تبدیل کر کے شبیر حسن خاں کر لیا۔ جوش ملیح آبادی کی پیدائش، ملیح آباد کے مرزا گنج محلہ میں 5 صحیح تحقیق کی رو سے دسمبر۔1894 کو ہوئی۔ بعض محققین یا ناقدین ان کی پیدائش 1894 بتاتے ہیں، جو درست نہیں۔

جوش ملیح آبادی کی حالاتِ زندگی

جوش ملیح آبادی کا انتقال 22 فروری 1982 اسلام آباد میں ہوا۔ ان کے والد کا نام منشی محمد بشیر احمد خاں تھا۔ وہ نسلی اعتبار سے آفریدی پٹھان تھے۔ ایک ایسے خانوادہ کے چشم و چراغ تھے جو عزت عظمت، شہرت و دولت اور قوت کے لیے مشہور تھے۔

جوش ملیح آبادی کے خاندان

جوش ملیح آبادی کے خاندان میں ایک زمانے سے تعلیم کا سلسلہ جاری تھا۔ جوش کے والد بشیر احمد خان خود ایک شاعر تھے اور ان کے دادا نواب احمد خان اور پر دادا فقیر محمد خان مشہور شاعر تھے۔ ان کے پر دادا ناسخ لکھنوی کے شاگرد تھے۔ انھوں نے گھر ہی پر دینیات اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اور یہیں ماسٹر گومتی سے انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔ جوش آگے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سیتاپور، لکھنو، ایم۔اے۔او کالج علی گڑھ اور سینٹ پیٹرس کالج آگرہ گئے۔ اسی دوران ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے خاندان کی خواتین شاعرات بھی تھیں۔ ان کی دادی بیگم نواب احمد خاں، مرزا غالب کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس طرح جوش کو شاعری ورثے میں ملی تھی، جس پر انھیں ناز تھا۔ جوش نے ابتدا میں اپنے کلام پر والد سے ہی اصلاح لی۔ بعد میں عزیز لکھنوی سے اصلاح لینے لگے۔

جوش ملیح آبادی کے اساتذہ | جوش ملیح آبادی کے اُستاد

جوش ملیح آبادی کے اساتذہ میں جناب مرزا ہادی رسوا، جناب مولا نا قدرت اللہ بیگ، جناب مولانا نیاز علی خان ملیح آبادی، اور جناب مولانا طاہر شامل ہیں۔ 1920 میں ان کا شعری مجموعہ " روح ادب" کے نام سے شائع ہوا، جو ان کی شہرت کا سبب بنا۔

جوش ملیح آبادی کی شخصیت اردو ادب میں شاعری متنازع فیہ

جوش ملیح آبادی کی شخصیت اردو ادب میں شاعری متنازع فیہ رہی ہے۔ جوش کی شخصیت میں نرگسیت، بیباکی، انانیت، خودداری اور خود پسندی موجود تھی۔ جوش ملیح آبادی کو شاعر انقلاب، شاعر رومان، شاعر فطرت، شاعر شباب، شاعر آخر الزماں، مصور فطرت اور اردو شاعری کا ولیم شیکسپیئر کہا جاتا ہے۔ عبدالرزاق ملیح آبادی نے انھیں شاعر انقلاب کا خطاب عطا کیا۔ منشی دیا نرائن نگم نے اپنے رسالہ " زمانہ " میں سب سے پہلے انھیں شاعر اعظم کے نام سے لکھا۔

جوش ملیح آبادی آزادی کے جذبے سے سرشار اور اردو کی محبت

جوش ملیح آبادی نے آزادی کے جذبے سے سرشار اور اردو کی محبت میں کئی نظمیں، ترانے اور مضامین لکھے۔

جوش ملیح آبادی اور اردو نثر

جوش ملیح آبادی کو اردو نثر پر بھی قدر تِ کاملہ حاصل تھا۔

جوش ملیح آبادی کی شاعری کی خصوصیات

جوش ملیح آبادی کا نام اُردو شاعری کےتمام اصنافِ سخن میں مشہورِ زمانہ ہے۔نظم،مرثیہ نگاری اور غزل کے میدان میں وہ اعلی پاۓ کی انقلابی شاعری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔

جوش ملیح آبادی کا زمانہ

جوش ملیح آبادی کا زمانہ ہندوستان میں سیاسی، سماجی، معاشی اور ادبی لحاظ سے افرا تفری اور اُتھل پتھل کا رہا ہے۔ زندگی میں ہو رہی تبدیلیوں کے اثرات براہ راست ادب پر بھی ہو رہے تھے۔ شعرا کی توجہ افادی ادب پر مرکوز تھی۔ شاعری کا مزاج بھی یکسر بدل رہا تھا۔ اردو شاعری میں ہیئت اور موضوعات کی سطح پر نئے نئے تجربات ہو رہے تھے۔

جوش ملیح آبادی کے ہم عصر شاعر یا جوش کے معاصرین شعراء

اس عہد میں جہاں ایک طرف اردو غزل کو سنوار نے سجانے میں حسرت موہانی، فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، جگر مرادآبادی اور فراق گورکھپوری نمایاں تھے وہیں دوسری طرف حفیظ جالندھری، مجاز لکھنوی، احسان دانش، مخدوم محی الدین، علی سردار جعفری کے ساتھ ساتھ جوش ملیح آبادی اپنی نظموں کے ذریعے اردو ادب کے خزینے کو مالا مال کر رہے تھے۔

جوش ملیح آبادی کو انقلابی لب و لہجے نے بنا دیا شاعرِ انقلاب

جوش ملیح آبادی نے اپنے خطابیہ اور انقلابی لب و لہجے سے اردو نظم کے دائرے کو وسیع کیا۔ ان کی نظموں میں سیاسی، اخلاقی اور مذہبی سبھی طرح کے موضوعات پاۓ جاتے ہیں۔ ان کی سیاسی نظموں میں بغاوت کا جذبہ اور آزادی کی شدت پائی جاتی ہے۔

جوش ملیح آبادی کی شاعری میں منظر نگاری و فطرت نگاری ہے

جوش ملیح آبادی کی شاعری کا ایک اہم پہلو منظر نگاری و فطرت نگاری ہے۔ انھیں فطرت سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک فطرت کی رعنائیاں کلام الہی کا درجہ رکھتی ہیں۔

جوش ملیح آبادی 1957 میں اعلی ریاستی اعزاز، ہلال امتیاز سے نوازا گیا

جوش ملیح آبادی 1957 میں پاکستان چلے آۓ اور پاکستانی شہریت حاصل کر لی، جہاں بعد از وفات انہیں اعلی ریاستی اعزاز، ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ انھوں نے پاکستان میں انجمن ترقی اردو کے بانی مولوی عبدالحق کے ساتھ اردو زبان کی لغت کی تیاری میں بہت دنوں تک کام کیا۔ اس کے علاوہ رسالہ "اردو نامہ " کی بھی ادارت کی۔ مرزا غلام احمد خان کے بلانے پر وہ پاکستان گئے تھے۔ ہجرت کے بعد ان کے دو شعری مجموعے "الہام و افکار اور نجوم و جواہر " پاکستان سے شائع ہوۓ۔ اس کے ساتھ ہی ان کی خود نوشت " یادوں کی بارات " بھی شائع ہوئی۔ حیدرآباد کے شاہی نظام کے دربار میں دارالترجمہ میں کام کرتے رہے۔1925 میں ان کا تقرر دارالترجمہ حیدرآباد میں ناظر ادب کے عہدے پر ہوا۔ جوش 1943 سے 1948 تک فلموں میں بھی طبع آزمائی کی اور فلمی مکالمے لکھے۔ دہلی سے 1935 میں ماہنامہ "کلیم‘‘ جاری کیا جو چار سال تک کامیابی کے ساتھ جاری رہا اس کے بعد مالی دشواریوں کے سبب ماہنامہ ’’نیا ادب میں ضم ہو گیا۔

جوش ملیح آبادی کی کتاب

ماہنامہ " کلیم " میں شائع شدہ مضامین کو یکجا کر کے " اشارات " کے نام سے 1942 میں شائع کیا۔ اسی دوران ان کے چھ شعری مجموعے " نقش و نگار / شعلہ و شبنم / فکر و نشاط / جنون و حکمت/ حرف و حکایت/آیات و نغمات شائع ہوئے۔

محکمہ اطلاعات و نشریات دہلی کے ماہنامہ "آجکل کے مدیر جوش ملیح آبادی

1948 سے 1955 تک وہ محکمہ اطلاعات و نشریات دہلی کے ماہنامہ "آجکل کے مدیر کے عہدے پر فائز رہے۔

جوش ملیح آبادی نے کالم نگاری بھی کی وہ روز نامہ جنگ سے منسلک ہوۓ اور ’’علم و فکر ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔ ان کا اولین کالم 1962 کو شائع ہوا

جوش ملیح آبادی نے کالم نگاری بھی کی وہ روز نامہ جنگ سے منسلک ہوۓ اور ’’علم و فکر ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔ ان کا اولین کالم 1962 کو شائع ہوا۔ انہیں مولانا ابوالکلام آزاد کے علاوہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی قربتیں حاصل رہیں چنانچہ جواہر لال نہرو آخری وقت تک کو شش کرتے رہے کہ وہ پاکستان نہ جائیں۔ جوش کو ان کی خود نوشت ’’ یادوں کی بارات ‘‘ سے بہت زیاد شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی، جوش ملیح آبادی کی باتیں متنازع بنیں رہیں، ادبی اور سیاسی حلقوں میں تیز ہلچل مچی رہی۔ اخباروں میں حمایت اور مخالفت میں کالم بھی لکھے گئے۔ جوش کی طویل ترین نظم ’’حرف آخر ‘‘ ہے۔ ان کی مشہور نظموں میں " برسات کی شفق، برسات کی ایک شام، نغمہ سحرا، پیغمبر فطرت، بدلی کا چاند،کلیوں کی بیداری، البیلی صبیح، ربودگی جادو کی سرزمین / فتنہ، خانقاہ/ جھریاں، نا آشناہ مہمان، برسات کی شام، جوانی کی آمد آمد، شیر یں کلام، ہماری سوسائٹی، مولوی، موسیقی کا جزیرہ، تو اگر واپس نہ آتی، پاکسان، حسن اور مزدوری /کارل مارکس کمیونسٹ سے خطاب، شکست زنداں کا خواب، حیف اے ہندوستان، بغاوت، غلاموں سے خطاب، صداۓ بیداری، آثار انقلاب، مالن / جامن والیاں، رند شاہد باز، جوانی کی رات، ا ٹھتی جوانی وغیرہ ہیں۔

جوش ملیح آبادی کی نظم نگاری

جوش ملیح آبادی نے ان تمام نظموں کے علاوہ بھی ایسی بہت ساری نظمیں لکھیں ہیں جو بے حدمشہور اور مقبول ہوئیں۔ انھوں نے سب سے قبل اپنی شاعری میں دبے کچلے، غریب، مفلس انسان اور استحصال زدہ کسانوں کی زندگی کو پیش کیا۔

جوش ملیح آبادی کی شاعری میں گاؤں کے مختلف مناظر کی تصویر کشی

جوش ملیح آبادی کی شاعری میں گاؤں کے مختلف مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ جوش نے معاشرہ کے استحصال زدہ کردار کو موضوع بناکر شاعری کی سماجی وابستگی کو فوقیت دی ہے۔ آزادی ہند کی جنگ میں قلم کے سپاہیوں میں ایک اہم نام جوش ملیح آبادی کا بھی آتا ہے۔


شاعر انقلاب کسے کہا جاتا ہے | جوش ملیح آبادی شاعری انقلاب کیوں کہا جاتا ہے

جوش ملیح آبادی نے اپنی شاعری کے ذریعہ لوگوں میں جوش و خروش اور انقلاب پیدا کیا۔ اس لیے انھیں "شاعر انقلاب کہا جاتا ہے۔

گوپی چند نارنگ نے جوش ملیح آبادی کے متعلق کہا ہے کہ

’’جوش کے لہجے میں ایسا طنطنہ اور مردانگی تھی اور ان کی آواز میں ایسی گھن گرج، کرک اور دبدبہ تھا کہ معلوم ہوتا تھا گویا ہمالیہ لرز رہا ہے یا زلزلہ آ گیا ہے‘‘۔ 

پروفیسر محمد حسن صاحب جوش ملیح آبادی کے بارے میں رقمطراز ہیں، وہ کہتے ہیں کہ

’’جوش کا کلام لفظوں کی انمول اور بے مثال قوس قزح ہے۔ رنگ احساس اور تصور ات کا ایسا خزانہ جس کی مثال سودا، نظیر اور انیس کے علاوہ ہزار سال کے اردو ادب میں ناپید ہے‘‘۔

جوش ملیح آبادی کے متعلق کنور نور سنگھ نے لکھا ہے کہ

’’ حضرت ہمارے ملک کی جنگ آزادی کے سورما اور صف اول کے شاعر تھے‘‘۔

مشہورِ زمانہ نقّاد کلیم الدین احمد نے جوش کی نظم ’’وطن ‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ

’’ موضوع پر ان کی نظم ’ وطن ‘ کا ہر مصرع عظمت ہندوستان کا مظہر ہے‘‘۔

جوش ملیح آبادی کی شاعری میں جنگ عظیم اول و دوم اور ملک کی آزادی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی پہلو

جوش ملیح آبادی جنگ عظیم اول و دوم اور ملک کی آزادی تک تمام سیاسی، معاشی اور اخلاقی بد حالی کے عینی شاہد تھے۔ اسی لیے وہ جو کچھ دیکھتے اور جو کچھ محسوس کرتے اُسی کو بیان کر دیتے تھے۔

جوش ملیح آبادی کی نظموں کا موضوع سماجی برائیوں، بد عنوانیوں، استحصال، رشوت خوری وغیرہ

جوش ملیح آبادی نے اسی طرح سماجی برائیوں، بد عنوانیوں، استحصال، رشوت خوری وغیرہ کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہے۔، جوش صیح آبادی کے یہاں اس وقت برطانوی سامراج اور بالخصوص ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے مظالم کے خلاف نظم ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب‘‘ لکھی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب

انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعے حکومت پر گہرا طنز کیا، جس سے وہ انگریزی سرکار کے عتاب کا شکار ہوۓ۔ ان کی شاعری میں بے پناہ روانی اور سلامت ہے۔ان کا زخیرہ الفاظ بے حد وسیع ہے۔ جوش کی نظموں میں نئی نئی اور اچھوتی تشبہیوں اور استعاروں کا ایک ایسا بر جستہ بے ساختہ استعمال ہے کہ پڑھنے والا ان کے طلسم میں گرفتار ہو کر رہ جاتا ہے۔ مختلف قدرتی مناظر فطرت کو بھی جوش نے بڑی مہارت، لگن، خوبصورتی اور روانی کے ساتھ بیان کیا ہے۔

جوش ملیح آبادی کی حالاتِ زندگی اور شاعری کی خصوصیات | جوش ملیح آبادی کی نظم نگاری کا جائزہ


اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے