جوش ملیح آبادی کی نظم بدلی کا چاند کا جائزہ | بدلی کا چاند نظم کی تشریح، خلاصہ
حل لغات : بدلی/( بادل کی تصغیر) بادل یا بادل کا ٹکڑا۔ بدلی کا چاند / بادل میں چھپ جانے والا چاند۔ خورشید/سورج۔ ظلمت / تاریکی، اندھیرا۔ ظلمت کے نشاں تاریکی کے نشان۔ مہتاب / چاند۔ چاندی کے ورق / چاندی کا کٹا ہوا باریک پتّر۔ سانولے پن / سیاہی مائل رنگ۔ صباحت/ گورا پن، خوب صورتی، خوب روئی۔ جبیں / پیشانی۔ خط / لکیر، نشان۔ گھٹائیں / بادلوں، ابر۔ چاک ہو نا / پھٹ جانا، کھلا ہو نا۔ تھر انا/ کانپنا، ڈرنا۔ در پیچے / کھڑ کیاں۔ جھلکا نا / عکس ظاہر ہو نا، چمکانا۔ گردوں /آسمان۔ تاریخی اندھیرا۔ سفینے اکشتیاں۔ سنگی جنون، ہوا کا تیز چلنا۔ گرداب بھنور، پانی کا چکر۔ غوطے کھانا، ڈ بی لگانا۔ غرفوں / غرفہ کی جمع، کمروں، بالاخانوں، خلوت گاہوں۔ آ سمانوں۔ امواج / موج کی جمع، گوں۔ رگیں گردوں آسانوں۔ امواج موج کی جمع، لہروں، تر نگوں۔ نبضیں نہیں، ناڑی، رگیں۔ حلقوں دائروں، ھیروں، احاطوں۔ کہسارا پہاڑی علاقہ۔ تبسم ہلکی مسکراہٹ، مسکرانا۔ چلمن پردہ۔ تجلی روشنی، نور۔ فلک آسمان۔ بے نور اندھیرا۔ ضیا روشنی۔ کاوش کوشش، تلاش، جستجو۔ کاوش نور و ظلمت/روشنی و تاریکی کی تلاش۔ نور روشنی۔ ظلمت/ تاریکی، اندھیرا۔ تڑپتی فطرت/ فطرت کی بیقراری، اضطرابی۔ مفہوم جو سمجھ میں آئے، سمجھا گیا۔
جوش ملیح آبادی کی نظم “ بدلی کا چاند ‘‘ مجموعہ ’’ شعلہ و شبنم ‘‘
جوش ملیح آبادی کی نظم “ بدلی کا چاند ‘‘ مجموعہ ’’ شعلہ و شبنم ‘‘ میں ہے۔ یہ مجموعہ سب سے پہلے مکتبہ جامعہ دہلی سے 1936 میں شائع ہوا تھا۔ یہ نظم نو اشعار پر مشتمل پابند نظم کی ہیئت میں ہے۔ اس میں قوافی و ردیف کی خاص پابندی کی گئی ہے۔
بیسویں صدی کے عظیم شعرامیں جن شاعروں نے اردو نظم کو نئی سمت و رفتار اور جدت و ندرت سے آشنا کیا ان میں جوش ملیح آبادی کا نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ انھوں نے علامہ اقبال سے براہ راست اثرات قبول کیے۔ ان کی بیشتر نظمیں متعلقہ عہد کے سماجی و سیاسی انتشار و اضطراب اور اتھل پتھل کا احاطہ کرتی ہیں۔
ان کی نظموں کا دائرہ وسیع تر ہے۔ ان کی نظمیں مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں۔ مثلا، حسن و عشق، مناظر فطرت، قومی و،، وطنی، آزادی، انقلابی، اشتراکی، ترقی پسندی، انسان دوستی، انسانی ہمدردی و عظمت، مساوات، کسان، محنت کش طبقه، سماجی و معاشی بدحالی و برائی، سرمایہ داری کی لعنتیں وغیرہ وغیرہ۔ انھیں انقلابی تحریکات اور کسان و مزدور سے خاصی دلچسپی تھی۔ ان کے یہاں انقلاب کا تصور الگ نوعیت کا ہے۔ان کی انقلابی نظمیں ان ہی دلچسپیوں کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں شاعر انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔ان کی انقلابی نظموں میں انگریزوں سے حد درجہ نفرت و غصہ اور غیض و غضب کا اظہار ملتا ہے، چوں کہ وہ انسانوں کے استحصال اور معصوم جانوں کے قتل کا عینی شاہد ہیں۔ جوش ملیح آبادی ایک حساس فطرت کے مالک تھے۔ ان کا مشاہدہ بہت گہرا تھا۔ ان کو بچپن ہی سے مختلف مناظر فطرت سے ایک والہانہ لگاؤ تھا، جو جوانی میں عشق کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ جب اپنی نظموں میں کس منظر کی تصویر کشی کرتے ہیں تو ماضی کی یادوں اور دھند لکوں میں چلے جاتے ہیں۔ یہ مناظر صرف ایک منظر یا ایک صورت کی شکل میں عیاں نہیں ہوتے بلکہ ان کے جذبات و احساسات کو برانگیختہ کرتے ہیں اور تحریک بھی پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لب و لہجے میں سوز و گداز اور ملائمیت پائی جاتی ہے۔ وہ قدرتی مناظر سے فطری محبت کرتے ہیں اور ان سے سبق بھی حاصل کرتے ہیں۔ وہ فطرت کے آغوش میں سکون و اطمینان محسوس کرتے ہیں اور اس کی رعنائیوں و رنگینیوں میں محو خرام ہو جاتے ہیں۔اس لیے انھیں شاعر فطرت اور مصور جذ بات کہا جاتا ہے۔
جوش کی معروف نظم " بدلی کا چاند "
جوش کی معروف نظم " بدلی کا چاند " ہے۔ انھوں نے اس میں بادل و چاند کی کشمکش، نقل و حرکت اور ان دونوں کی خصوصیات کو بڑے خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔اس نظم کا مرکزی خیال " انسانی فلسفہ " ہے۔ نظم کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے :
Badli Ka Chand By Josh Mleehabadi Poetry In Urdu
سورج کے ڈوبنے سے اندھیرا ک ا چھا جانا، چاند کا بادل کے اندر سے چاندی کے ورق بر سانے سے ہر چہار جانب روشنی کا پھیل جانا، کتنا دل کش اور دلآویز منظر ہے۔اسی طرح میداں کے سانولے پن یعنی سیاہی مائل خوبصورتی کا دوڑ نا، بادل کا تھوڑا سا ابھر کر چاند کی پیشانی کا چھلکنا، پھر چاند کا بادل میں چھپ جانا اور اس کا عکس ظاہر ہو نا، یہ کتنا حسین اور دل کش نظارہ ہے۔ بادل میں چاند کی لکیر کا کھینچنا، پھر گھٹاؤں کا چاک ہو نا اور اندھیرے کا رفتہ رفتہ ختم ہو نا۔ پھر بادل میں چاند کا چھپ جانا اور ہیرے کی کھڑکیوں کا کھولنا۔ چاند کا آسمان پر آنا اور دریا کی طرح لہرانا، بادل کا سمٹنا اور اندھیرے میں چاندی کے سفینے کو لے کر چلنا۔ ہوا کے چلنے سے بھنور میں غوطے کھانا۔ گردوں کا اندر سے ہلکا سا نکلنا اور موجوں کی لہروں کا تیز ہو نا۔ گھیروں یا دائروں میں بادل کے دوڑنے سے پہاڑ کا سر چکرانا۔ بادل کی مسکراہٹ سے دریا کارواں ہو نا۔ بدلی کا چھانا اور میدان کا گھبرانا۔ چاند کے اکھر نے سے روشنی کا پھیلنا اور اس کے ڈوبنے سے بادل پر اندھیرا چھا جانا اور اس کے سلجھنے سے روشنی کا بر سنا وغیرہ کتناپر کشش، حسین اور معانی سے مملو ہیں۔آخری شعر فلسفیانہ ہے جو بہت ہی معانی خیز ہے اور یہی اس کا مرکزی خیال بھی ہے :
انساں کی تڑپتی فطرت کا مفہوم سمجھ میں آنے لگا یہاں نور و ظلمت کے پس پر دہ یا اس کے توسط سے انسانی نفسیات کو بروئے کار لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی کہ جس طرح ایک چاند بادل سے بار بار نکلتا اور اس میں ڈوب جاتا ہے۔ اسی طرح انسان ظلمت ( بدی) سے بچ کر نور (نیکی) کو اپنانا چاہتا ہے لیکن بدی اسے بار بار اپنے چنگل میں لے لیتی ہے۔اس طرح انسانی زندگی میں خیر و شر ه نیکی و بدی نور ظلمت کی کشمکش رواں دواں رہتی ہے۔ الغرض جوش ملیح آبادی فطرت کے نباض ہیں۔انھوں نے بادل اور چاند کی کشمکش اور شام کے حسین مناظر کو انو کھے لفظیات و تراکیب اور نادر تشبیہات کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جو ان کی فن کارانہ ہنر مندی اور دسترس کو اجاگر کرتی ہے۔ ان کی نظموں کی فضا تمام تر ہندوستانی ہے۔ مناظر جانے پہچانے ہیں۔ اثر لکھنوی نے ان کی منظری شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ
"ان کے کلام میں آبشاروں کا جوش و خروش و ترنم ہے۔ دریا کی روانی، موجوں کا تلاطم اور باد سحر کی ندی و سبک روی ہے۔ ان کی شاعری میں وہی بے ترتیبی میں ترتیب اور تنوع میں ہم آہنگی ہے جو فطرت کا طرہ امتیاز ہے۔ فطرت ان سے جو کچھ کہتی ہے اسی کی زبان میں با آواز بلند اس کا اعلان کرتے ہیں۔
جوش ملیح آبادی کے فن کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی بھی منظر کو پیش کرتے وقت الفاظ کا ایسا غیر معمولی تخلیقی استعمال کرتے ہیں کہ سارا منظر تصویر کی طرح آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتا ہے۔ وہ لفظوں کے ذریعے ہر منظر کا ایسا نقشہ پیش کرتے ہیں کہ قاری محو حیرت ہو کر خود کو اس کیفیت میں ڈھال لیتا ہے اور کسی ادھیڑ بن میں کھو جاتا ہے۔انھیں محاکات نگاری اور مرقع نگاری میں کمال حاصل ہے۔ وہ جزئیات کی پیش کش میں بھی قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔ لفظیات و تراکیب کا انتخاب جوش کی علمی لیاقت پر دال ہے۔
جوش ملیح آبادی کی اس قبیل کی نظمیں مندرجہ ذیل ہیں : " برسات کی ایک شام / پیمبر فطرت نغمہ سحر، کسانا جمنا کے کنارے، برسات کی پہلی گھٹا، برسات کی شفق،روح شام، شام کی بزم آرائیاں، بھری برسات کی روح، شب ماہ/ساون کے مہینے، البیلی صبح، کلیوں کی بیداری، شام کا رومان / گرمی و مسرت شب ماه/ دوری “
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے