Ticker

6/recent/ticker-posts

ناول امراؤ جان ادا کا تنقیدی جائزہ Novel Umrao Jaan Ada Ka Tanqeedi Jaiza in Urdu

ناول امراؤ جان ادا کا تنقیدی جائزہ Novel Umrao Jaan Ada Ka Tanqeedi Jaiza in Urdu

امراؤ جان ادا : اس مشہور ناول کے مصنف مرزا محمد ہادی رسوا لکھنوی ہیں۔ اُردو ادب کی دنیا میں اس کو معرکہ آرا معاشرتی ناول کا درجہ حاصل ہے۔ اِس ناول میں انیسویں صدی کے لکھنؤ کی زوال پزیر سماجی اور ثقافتی جھلکیاں بڑے دلکش اور پرکشش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس زمانے میں لکھنو موسیقی اور علم و ادب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔مرزا ہادی رسوا نے اس خوبصورت محفلوں کی تصویر اس ناول اُمراؤ جان ادا میں بڑی مہارت اور خوش اسلوبی سے بنائی ہیں۔ یہ ناول کو اُردو ادب میں تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ شر ر کے فرضی، خیالی اور جن پریوں کے قصوں اور ڈپٹی نذیر احمد کی اصلاح پسندی سے بھرپور تخلیقی عمل کے خلاف یہ امراؤ جان ادا اردو ناول نگاری میں زندگی کی حقیقت، واقعیت اور فن کی پُرلطف حسن کاری کو جنم دیتا ہے۔ دنیا بھر کے یونیورسٹیوں کے سلیبس میں اس ناول کا مطالعہ شامل ہے لہذا اس کا پڑھنا بے حد ضروری ہو جاتا ہے۔ آیئے ناول اُمراؤ جان ادا کا فنی اور فکری جائزہ لیا جائے۔

ناول امراؤ جان ادا کا فنی جائزہ


امراؤ جان ادا کی کردار نگاری

ناول امراؤ جان ادا میں فنی لحاظ سے بہت زیادہ اور اہم کر دار ہیں۔ ناول کا مطالعہ کرتے ہوۓ صاف طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں ہر موڑ پر نئے نئے کردار ابھرتے ہیں اور یہی وجہ بھی ہے کہ اس ناول میں کرداروں کے نام بےشمار ہو گئے ہیں۔ اتنے زیادہ تعداد میں کردار اردو کے کسی اور ناول میں شائد ہی دیکھنے کو ملے۔ اتنے زیادہ کر دار ہونے کے باجود بھی رسوا ان کرداروں کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتے ہوۓ اور ہر لحاظ سے مکمل نبھاہ کرنے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ رسوا کے یہاں ناول میں کردار بہت بڑا ہو یا کہ کر دارچھوٹا، رسوا نے اسے ناول نگار کی حیثیت سے اُسے تمام تر نفسیات وجذبات، خاندانی پس منظر، عادات و اطوار اور موجودہ حیثیت و عمر کے ساتھ پیش کرنے میں کوئی كمی نہیں کی ہے۔

اُمراؤ جان ادا کا پلاٹ، قِصّہ کا خلاصہ

اس ناول کا سب سے اہم اور بڑا کردار امر اؤ جان کا ہے۔ اس کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہونا چاہئے۔ امراؤ جان قصے کی ہیروئن بھی ہے۔ اس وجہ سے وہ پورے قصے پر چھائی ہوئی رہتی ہے۔ امراؤ جان ادا کا کر دار اردو ناول نگاری میں اہم ترین کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بےحد سنجیدہ اور متحرک کردار ہے۔ یہ زندگی کی سچی کہانی کی ضامن ہے۔ ابھی تک اس کردار جیسا دوسرا کردار تخلیق نہیں کیا جا سکا ہے۔

امراؤ جان نہ تو پیدائشی طوائف تھی اور نہ ہی وہ شریف زادی ہی تھی اور نہ ہی کسی شریف گھرانے میں پیدا ہوئی تھی۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ بےبس اور مجبور کمسن لڑکی دس سال تک اپنے شریف والدین کے زیر سایہ زندگی بسر کر چکی تھی اس کی زندگی میں بس اتنے ہی سکون اور اطمینان کے دن تھے لیکن اب وقت بدل چکا تھا اور اس سے زندگی کے حسیں دلکش اداؤں سے بھرپور لمحے جدا ہو گئے تھے۔ وقت نے کروٹ لی اور ایک منتقم مزاج شخص نے بدلے کی آگ میں امراؤ کی دنیا جلا ڈالی۔اس کے انتقام کی آندھی نے امراؤ کا گھر بسنے سے پہلے ہی اُجاڑ دیا۔ اُمراؤ جان اغوا ہو کر خانم کے کھوٹے پر جا پہنچی۔ وہاں تعلیم و تربیت دےکر اسے مکمل طوائف بنادی گئی۔شاعری کے شوق نے شاعرہ بنا دیا اور ادب سے بھی گہرا تعلق تھا۔ خوبصورت تھی، رقص و سرور میں مہارت رکھتی تھی۔ ان تمام خوبیوں کی وجہ سے بےحد شہرت اور مقبولیت ملی۔ امراؤ جہاں بھی جاتی سر آ نکھوں پر بٹھائی جاتی تھی۔ امراؤ جان ادا کے کردار میں مرزا محمد ہادی رسوا کی جی توڑ محنت نظر اتی ہے۔

اب امراؤ کی زندگی کا آغاز ایک نئے سرے سے ہونا ہے۔ اس کی زندگی میں اہم موڑ اس وقت آتا ہے جب وہ کوٹھے کے گندے ماحول اور حالات سے پوری طرح اُب چکی ہے اور اب وہ رنڈی بن کر جینا نہیں چاہتی ہے۔اُمراؤ جان ادا کے کردار کا یہ ارتقاء اور بلند تخیل اس کی شخصیت او رکردار میں خاص اہمیت اور دلکشی پیدا کرتا ہے۔امراؤ جان کا کردار لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔ زندگی کے آخری برسوں میں وہ تمام چیزیں ترک کر دیتی ہے۔آپ جیسے عام لوگوں سے بھی ملنا جلنا پسند نہیں۔نماز اور روزے کو پوری طرح سے ایمان کے ساتھ اپنا لیتی ہے اور اور پکی د یندار بن جاتی ہے۔زیارتِ کر بلا معلی سے بھی فیض یا ب ہو جاتی ہے۔ رسوا نے گہرے نفسیاتی مطالعے سے کام لیتے ہوئے امراؤ جان کے کردار کی تشکیل کی ہے۔

خانم کا کردار

ناول امراؤ جان ادا میں خانم کا کردار ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔خانم کوٹھے کی گندی اور گھنونی دنیا کی سرتاج ہے۔ گناہ کے سمندر میں وہ سر سے پاؤں تک ڈوبی ہوئی ہے۔خانم کی تمام عمر اسی گناہ کے سمندر غوطہ لگاتے ہوئے گزری ہے۔اپنے کردار کے طور پر وہ کوٹھے پر ایک سر دار کی حیثیت رکھتی ہے۔

ناول کے پلاٹ میں خانم جان کا کردار نوابوں کے لئے سامان تغیش فراہم کرنا ہے ۔بہلا پھسلا کر لائی گئی اور اغوا شدہ کمسنی لڑکیوں کو معمولی سی قیمت دے کر خرید لینا خانم کی فطرتِ انسانی ہے۔ وہ اپنے ناپاک ارادوں اور مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے خریدی ہوئی لڑکیوں کی بھرپُور پرورش کرتی آئی ہے ۔ان لڑکیوں کے جوان ہونے کے بعد خانم ان کی آبرو کی دکان لگاتی ہے اور اس طرح سے وہ اپنا کاروبار چمکاتی آئی ہے۔

خانم کے کردار میں غضب کا تضاد پایا ہے۔ وہ طوائفوں کو قرآن پڑھانے کے لئے مولوی کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جسم فروشی کے گھناؤنے دھندے کے لئے بھی مجبور کرتی ہے۔
خانم بڑی ہی مکار اور لالچی عورت ہے اور پیسے کے لئے سبھی کھیل کر سکتی ہے۔ اپنی بیٹی کی تربیت بھی اسی گناہ کے لئے کرتی ہے۔

بسم اللہ جان کا کردار

بسم اللہ جان خانم کی بیٹی ہے اسی لیے بسم اللہ جان کو خاندانی طوائف کہا جا سکتا ہے۔ دوسری تمام طوائفوں کے مقابلے اس پر اپنی ماں یعنی خانم کا بہت زیادہ اثر دکھائی دیتا ہے۔ اس وجہ سے دیگر طوائفوں کے مقابلے میں اپنے پیشے میں یہ سب سے زیادہ کامیاب بھی ہے۔

خورشید جان کا کردار

امراؤ جان ادا کی طرح خورشید جان ایک شریف گھرانے کی نیک بیٹی تھی۔یہ ایک بڑے زمیندار کی لڑکی تھی لیکن اغوا کر کے خانم کے ہاتھ بیچ دی گئی تھی۔ اور خانم نے اسے اپنے کوٹھے کے کام پر لگا دیا ہے۔ اس کے کردار میں بھی تھوڑا بہت تضاد پایا جاتا ہے۔ کبھی تو ناول نگار اسے ناچ گانے کی ماہر اور خوبصورت کہتاہے اور کبھی کہتا ہے کہ خوبصورت لیکن ناچنے گانے میں پھوڑ ہے۔ خورشید جان کی رگوں میں شریف خاندان کا لہو ہے۔ کوٹھے کے گھنونے دھندے کو وہ دل سے قبول نہیں کرتی ہے لیکن مجبوری تھی۔

گوہر مرزا کا کردار

گوہر کی عادات و اطوار، نشست و برخاست، حرکات و سکنات اور گفتگو کے اندازسے اس کے خاندانی پس منظر کا بھرپور ثبوت ملتا ہے۔بنو ڈومنی کا بیٹا گوہر مرزا ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جس کا کوئی ضمیر ہی نہیں۔ شرارتی، بیکار اور بے غیرت قسم کا آدمی یا یوں کہیے کہ آدمی نما جانور ہے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے