دو گز زمین اور عبدالصمد کی ناول نگاری کا تنقیدی جائزہ
عبدالمحمد کا شمار اس عہد کے ممتاز ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ ناول اور افسانہ دونوں میں یکساں فنی مہارت رکھتے ہیں۔ دو گز زمین (۱۹۸۸) مہاتما ( ۱۹۹۴) خوابوں کا سویرا (۱۹۹۴) مباساگر (۱۹۹۹) اور دھنک ( ۲۰۰۴ ) یہ ان کے پانچ مشہور ناول ہیں۔ اس میں دوگز زمین کو ۱۹۹۰ء میں ساہتیہ اکادمی انعام سے نوازا گیا۔ مہاتما تعلیم جیسے اہم اور نازک موضوع پر خوب صورت ناول ہونے کے باوجود بہت زیادہ شہرت حاصل نہ کر سکا۔ دو گز زمین اور خوابوں کا سویرا اپنے موضوع کے ساتھ ساتھ خوبصورت اسلوب کی وجہ سے موضوع بحث بنے رہے۔ یہ دونوں ناول چوں کہ با ترسل اسلوب نگارش اور طریق کار کے جملہ اوصاف لئے ہوئے ہیں اس لئے ہر لحاظ سے لائق مطالعہ ہیں۔ ان میں جہاں ناول کا جاناپہچانا درو بست موجود ہے وہاں امکانی جہتوں کے اشارے بھی سرگوشیانہ انداز میں محو گفتگو ہیں۔ کردار، واقعہ، مکالمہ تصور کشی، غیر گنجلک بیانی، ان سب کی مدد سے عبد الصمد نے ایسے عصری مسائل اور انسانی صورت حال کے ایسے عصری تضادات کی تخلیقی تجسیم کرنے کی کوشش کی ہے جو عہد حاضر میں ہم سب کے لئے تشویش کا باعث بنتے جارہے ہیں۔ ہندوستانی معاشرے میں بعض مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق مختلف فرقوں کی یک جہتی یا باہمی کشمکش اور اقدار کے نروان اور بحران سے ہے۔ عبدالصمد نے اپنے ناولوں میں تہذیبی زوال اور اقدار کے بحران کا منظر نامہ پیش کیا ہے دوگز زمین میں ناگز یریت کے المناک احساس کے ساتھ اور خوابوں کا سویرا میں امکانی اشاروں کی زبان اختیار کر کےانھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت کا ثبوت دیا ہے۔
Abdussamad Ke Novel Do Gaz Zameen Ka Tanqeedi Jaiza
دو گز زمین (۱۹۸۸) کا آغاز تحریک خلافت سے ہوتا ہے اور انتقام قیام بنگلہ دیش پر، اس لئے ناول میں تقسیم وطن کے نتیجے میں تقسیم کنبہ کا کرب والم جا بجا جھلکتا ہے۔ اصغرحسین مغربی پاکستان میں مہاجر ہیں اور اختر حسین اپنے آبائی وطن ہندوستان کو ترک کرنا نہیں چاہتے لیکن مالی بدحالی سے پریشان ہو کر گر د نیا پاسپورٹ کے سہارے مشرقی پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہاں انہیں ملازمت بھی مل جاتی ہے لیکن قیام بنگلہ دیش کے بعد بہاری ہونے کے جرم میں ہندوستان واپس لوٹنا پڑ تا ہے۔ اختر حسین کو ہندوستان میں ایک اور مسئلہ کا سامنا کرنا پڑ تا ہے ان کے گھر میں ان کے پاکستانی اعز ہ و احباب کے خطوط آتے رہتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر ان پر الزام لگتا ہے کہ ان کے گھر میں ٹرانسمیٹر کے ذریعے پاکستان کو خفیہ خبر یں پہنچائی جاتی ہیں حالانکہ اس کے برعکس اختر حسین کا رویہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی خبر یں پاکستان ریڈیو کے ذریعے سننا پسند نہیں کرتے۔ ان کے گھر کی تلاشی سی بی آئی لیتی ہے۔ اس مسئلے کے تجزیے میں عبدالصمد نے حقیقت نگاری کے جوہر دکھاۓ ہیں اور سیاست کی دوہری شاطرانہ چال کو بے نقاب کیا ہے کہ ایک طرف تو سیکولرزم ہونے کی دعویداری ہے اور دوسری جانب قوم پر ور مسلمانوں کو شک و شبے کی نگاہوں سے دیکھا جا تا ہے۔ اختر حسین اپنے بیٹے حامد کو پناہ دے سکتے تھے لیکن ان کی اصول پرستی اور وطن دوستی انہیں بیٹے کو پناہ دینے سے روکتی ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں ڈھماکے کے حالات حامد کے لئے درست نہیں ہیں۔
Abdus Samad Ki Novel Nigari Tanqeedi Jaiza
عبدالصمد نے آزادی سے چند برس قبل سے لے کر تقریبا پچیں تیس برس بعد تک کی سیاست کا جیسا مربوط مسلسل اور موثر بیان دوگر زمین میں پیش کیا ہے و ولا جواب ہے۔ کانگر لیں اور مسلم لیگ کی تلخ نواسیاست،فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں ہندؤں اور مسلمانوں کے ووٹ کا Polarisation اور اسکے نتائج ملک کی آزادی اور اس کے بعد آزاد ہندوستان کے سیکورلیڈروں کی بد مستی، نشنلشٹ مسلمانوں کی ناقدری، زمینداری کا خاتمہ اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی مالی بدحالی، سیاسی رہنماؤں کی مفاد پرست سیاست اور لوٹ کھسوٹ کے سبب روز افزوں بے روز گاری، اس کے سبب مسلمانوں کی مشرقی یا مغربی پاکستان کی طرف ہجرت، پھر بنگلہ دیش کا قیام اور قتل و غارت گری، ہندوستان میں ایمرجنسی کا نفاذ اور کانگریس کی شکست، پاکستان میں مہاجرین کی درگت اور تلاش رزق میں عرب ممالک کی طرف روانگی یہ دو بنیادی موضوعات ہیں جو اس ناول کا تانا بانا تیار کرتے ہیں اور بالکل صاف ستھرے اور سچے طریقے سے اس طرح سامنے آتے ہیں کہ ان میں خیال آفری کا شبہ بھی نہیں ہوتا۔ یہ سارے احوال واقعات کی کڑیوں سے لپٹ کر بڑے فطری انداز میں پیش ہوئے ہیں جیسے از خود کوئی پودانمو پذیر ہوتا ہے، پھر اس میں برگ و بار آتے ہیں اور پھر وہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ عبد الصمد نے کمال فن کاری سے ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات کو زیب داستان بنایا ہے جن کی حیثیت بعد میں ناگزیر بن کر ابھرتی ہے اور جو ناول کے بنیادی ڈھانچے کومضبوط بناتے ہوۓ اسے تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ اصغر حسین اور اختر حسین کی سرد جنگ،اصغر سین کا بہار شریف آنا جانا، اسلام پور سے پٹنہ تک کا سفر متعلقین کے ساتھ گفت وشنید مسلم لیگ کا ایکشن نوا کھالی کا فساداورقتل وغارت گری کے واقعات وغیرہ۔ یہ سب چھوٹے چھوٹے واقعے ہیں مگر ایک بڑے مقصد کا جزو بن جاتے ہیں یعنی اس وقت کے مسلمانوں کی نفسیاتی اور جذباتی کیفیتوں کا احاطہ کرنا۔ یہ مقصد بحسن وخوبی پورا ہوتا ہے کیوں کہ حصول آزادی کے آخری چند سالوں سے قیام بنگلہ دیش تک بہاری مسلمان جتنے المیہ موڑوں سے گزرے ہیں ان کی ایسی کوئی تاریخ دو گز زمین کے سوا نہیں ملتی جس میں عوامی سطح پر جز جز معلومات فراہم کردی گئی ہو اور جس میں مسلمانوں کی نفسیاتی و جذباتی کیفیتوں کی زندہ تصویر یں محفوظ ہوگئی ہوں۔ بقول ڈاکٹر اعجاز علی ارشد اس ناول کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ مہاجرین کے مختلف زہنی رویوں کی عکاسی جس طرح اس ناول میں کی گئی ہے وہ ناول نگار کی حقیقت پسندی اور فنی مہارت دونوں کا ثبوت ہے۔
دوگز زمین فارم اور بیانیہ کے لحاظ سے ایک گٹھا ہوا ناول ہے
دوگز زمین فارم اور بیانیہ کے لحاظ سے ایک گٹھا ہوا ناول ہے جس کی کوئی چول دھیلی نہیں۔ واقعات سے واقعات ابھرتے ہیں اور تاریخی حقائق کے سیاق وسباق میں ناول کا قوام بنتے جاتے ہیں۔ ناول کا اختتام ایک طویل مکتوب کی صورت میں تھوڑی دیر کے لئے عجیب محسوس ہوتا ہے۔ مگر بقول پروفیسر وہاب اشرفی خزنیہ کی تعمیر میں اس خط کا بھی ایک رول ہے جسے فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
دو گز زمین کا اسلوب شاعرانہ کیف وکم سے بالکل خالی اور سادہ وسلیس ہے
دو گز زمین کا اسلوب شاعرانہ کیف وکم سے بالکل خالی اور سادہ وسلیس ہے۔ کیونکہ عبد الصمد بناوٹی یا شعری زبان کو ناول کیلئے سم قاتل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ایک انٹر ویو میں فرمایا کہ ا گلشن کی زبان نہ صرف یہ کہ ornamental نہیں ہوئی چاہئے بلکہ اس میں ایک خاص قسم کا کھردرا پن ہونا چاہئے جیسے بیدی کے یہاں جیسے منٹو کے یہاں _____ جہاں تک آپ اپنی زبان سے کچھ کہنا چاہتے ہیں و ہاں تک آپ شعری زبان کا استعمال کر لیتے لیکن آپ کی زبان سے جب دوسروں کی بات ہونے لگتی ہے تو اسکے لئے کون سی زبان استعمال کر یں گے آپ؟ ناول نگار در اصل ایک ایسا فوٹو گرافر ہوتا ہے جو تصویر یں اتارتا جاتا ہے اور اپنی کمنٹری کچھ نہیں دیتا لیکن تصویروں کا تراو یہ کچھ ایسا کردیتا ہے کہ کہانی آپ تک پہنچنے کے لئے بے تاب ہو جاتی ہے۔ اس Process میں جو زبان استعمال ہوتی ہے وہ غیر فطری نہیں ہوسکتی۔ اگر ہوتی ہے تو یہ اس فکشن کے آرٹ کا کھوٹ ہے۔
عبدالصمد بنیادی طور پر شفاف اور سادہ بیانیہ کے حامی ہیں
عبدالصمد بنیادی طور پر شفاف اور سادہ بیانیہ کے حامی ہیں۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو پریم چند کے گودان یا حیات اللہ انصاری کے لہو کے پھول کی روایت کو آگے بڑھا تا ہے۔ یعنی مذکور و ناول نگاروں کی سادگی کو پر کاری میں تبدیل کرتے ہوئے وہ استعارے تمثیل یا علامت کا ہلکا ہلکا سا یہ اپنے بیانیے پر ڈالتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ غیاث احمد گدی اور کلام حیدری کی نثر سے بھی متاثر ہیں اور غیر شعوری طور پران کا اثر قبول کر لیتے ہیں حسین الحق نے ان کے افسانوں اسلوب پر گفتگو کرتے ہوۓ شاید اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ عبدالصمد کا اسلوب اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ شفاف بیانیہ ہونے کے باوجودان کے یہاں آنکھ میچونی کا کھیل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ عبدالصمد بات کہتے ہیں مگر کھل کر نہیں کہتے۔ ( شعر وحکمت دور سوم کتاب ۴۲۵۷)
دوگز زمین کے اسلوب کی مثال
دوگز زمین کے اسلوب کی مثال ایک ہموار اور پرسکون ندی سے دی جاسکتی ہے جس میں روانی اور سکون زیادہ ہے۔ مدوجزر کی کیفیت کم کم اور ٹھہر ٹھہرکر۔ اس میں شاعری کے لوازمات کا بوجھ زبردستی نہیں ڈالا گیا بلکہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں ترسیل مفہوم کا مشکل کام آسانی سے انجام دیا گیا ہے۔
عبد الصمد زبان کو تصنع اور بناوٹ سے یکسر پاک رکھتے ہیں اس لئے ان کا اسلوب بیان سادہ اور سلیس ہے۔ علامتوں، استعاروں اور تمثالوں سے کام لیتے ہیں مگر اس قدر کہ ان سے بیانیہ میں تاثیر پیدا ہو نہ کہ پیچیدگی اور ابہام۔ فقرے زیادہ طویل نہیں ہوتے۔ان میں سادگی اور تسلسل بدرجہ اتم ہوتا ہے جو قاری کو بڑی سہولیت کے ساتھ اپنے ساتھ ساتھ لے کر آگے بڑھتارہتا ہے۔
’’ ہوا کچھ نہیں تھا پولیس شرمندہ ہو کر یہاں سے گئی تھی لیکن گھر کا وہ حصہ جس میں کچھ بھی پوشید ہ نہیں تھا ایک بھرم کے سوا سو ہ بھی طشت از بام ہو گیا تھا۔ کوئی ایسی چیز باقی نہیں بچی تھی جس پر کج کلاہی برقرار رکھی جاسکتی۔ تلاشی لینے والے جا چکے، پرسہ دینے والے بھی اپنے گھروں کو سدھارے لیکن اختر حسین کو ایسا لگ رہا تھا جیسے بین ہاؤس کی پھیلی ہوئی اور شیخ الطاف حسین کے زمانے سے کھڑی دیواروں میں ہزاروں لاکھوں چھید ہو گئے ہوں۔ اور ہر چھید سے ایک ایک آنکھ لگی اندر جھانک رہی ہوں کوئی دم ہوگا جب چھیدوں سے جھانکتی ہوئی آنکھیں اندر آ جائیں گی، پھر سب کچھ ختم ہو جاۓ گا، برسوں کی جمی جمائی سا کھ، قربانیوں سے لبریز عزت اور وطن دوستی میں معمور دل‘‘
سندھی بہاری کو اس طرح گھور گھور کر دیکھتا کہ جو بہاری بنگلہ دیش دیکھ کر آیا تھا وہ تو یوں سہم جاتا جیسے بلی کو دیکھ کر چوہا۔ کراچی میں ہر بہاری پچھلے کئی سالوں سے کسی بڑے واقعہ کا منتظر ہے۔ بس ایک چنگاری دکھانے کی دیر ہے ورنہ اوا اندراندر پک چکا ہے۔ آپ یقین مانے ابا جان کہ اگر خدانخواستہ بہاری اور سندھی میں بھی ٹھن گئی تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ ہو گا اس کی حیثیت تو اریخی ہوگی۔ خدا کا شکر ہے کہ شا ہ نعمت اللہ کی پیشین گوئی میں ایسی کوئی بات نہیں اور نہ یہاں بہاری اتنے آرام سے پیر نہیں پسرتے،،
عبد الصمد کے اسلوب کا ایک بڑا طاقتور عنصر طنز ہے۔ وہ بڑے سادہ اور سلیس جملے لکھتے ہیں مگر اس میں ایساطنز یہ پہلوسمادیتے ہیں کہ دو بات قاری کے ذہن کے کسی گوشے میں جا کر چڑھ جاتی ہے۔ سادگی سے پڑ ان طنزیہ عبارتوں میں بلا کی کاٹ ہوتی ہے۔ مثلا یہ جملے ملا حظہ کر یں:
” خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے جناح صاحب کو کہ اردو کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے تھے سواۓ پاکستان کے لیکن پاکستان کی زبان اردو بنادی‘‘
اس وقت تک جلسوں میں ٹرکوں سے آدمی خرید کر لانے کا رواج پیدا نہیں ہوا تھا‘‘
میں تو برابر لکھتا ہوں اگرڈاک نے مہربانی نہیں کی ہوگی تو یقینا ملے ہوں گے۔
” حامد کوانہوں نے قریب بلا کر آہستہ سے پوچھا پاکستان سے آئے ہو؟
جی ہاں
’’ماموں کو نہیں لاۓ؟
ہی دو تو مغربی پاکستان میں ہیں میں مشرقی سے آیا ہوں‘‘
کتنے پاکستان میں یا بو؟‘‘ حامد سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ سب لوگ خاموش تھے۔
اماں یہاں مسلمان پریشان ہوتا ہے تو کتنے مزے میں پاکستان چلا جا تا ہے وہاں اسے نوکری بھی مل جاتی ہے اور گھر بھی‘‘
بیٹا پھرتم کو کیوں نہیں ملی نوکری تم تو وہاں جج بننے کے لئے گئے تھے ؟
سرور حسین کے چہرے پر دھواں سا پھیل گیا‘‘
عبد الصمد اپنے اسلوب کو سجانے سنوارنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے۔ اپنی عبارتیں روانی سے لکھتے جاتے میں صنائع، بدائع یا پر تکلف اسلوب کے دیگر عناصر خود بخود جا بجا شامل ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ان کی نثر میں ہمیں تشبیہات واستعارات بھی ملتے ہیں اور ضرب الامثال ومحاورے بھی۔ کہیں علامتوں سے بھی کام لیا گیا ہے اور کہیں اشاروں اور کنایوں سے بھی مگر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہو پاتا ہے کہ ان عناصر کوز بروستی اسلوب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ در اصل عبد الصمد کے انداز ا اظہار کی شگفتگی ہے جو دلنشیں اور دلکشی کے عناصر سے خالی رہ ہی نہیں سکتی۔ مثلا ان اقتباسات پر ایک نظر ڈالیں۔
و ہ و میں پر رہ گئے تھے جہاں تھے البتہ یہ ضرور ہوا کہ ان کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کر نے والے دماغ ان کو چھوڑ کر جا چکے تھے۔ پوری کی پوری گاڑی پٹری پر کھڑی تھی لیکن اِنجن اس سے الگ ہوکر کہیں گم ہو چکا تھا‘‘
پانی کے اند را یک لہر چل رہی تھی اوپر سے پانی پر سکون تھا اور بھولے بھالے لوگ اس سکون سے بہت خوش تھے
ا ہم لوگ سیاست کی دیوی کے پجاری ہیں کسی مندر کے نہیں اور سیاست کی دیوی رات اور ون مسکراتی رہتی ہے۔
تین روز یوں گزر گئے جیسے منٹوں پر سوار تھے اور منٹوں کو بھی پر لگ گئے تھے۔
ونا چنے لگتی تو ایسا لگتا کہ اس کے جسم میں کوئی جادو ہے جوسر چڑھ کے بول رہا ہے۔
ا بھی اس نے پڑھائی شروع کی ہی تھی کہ ہونہار بروائے چکنے چکنے پات دکھائی دینے لگے تھے۔
سیاست اب کوئلے کی ایسی کان بن گئی ہے جس کے اندر جانے والوں کو کا لک ضرور لگے گی۔
وہ تلچھٹ کی طرح خود ہی کنارے آ گئے تھے انہیں کسی نے دودھ کی مکھی کی طرح نکال نہیں پھینکا تھا‘‘
ملک تقسیم ہوتے ہوتے تین حصوں میں بٹ گیا لیکن ہمارا خاندان تین تیر ہ نو ا ٹھارہ ہو گیا‘‘
وہاں تو حالت یہ ہے کہ اندھے کی گاۓ بیانی ہے اور لوگ چُکا لے کر دوڑ رہے ہیں جس کے ہاتھ جو لگ رہا ہے وہ ہتھیار ہا ہے ا لیکن ہوتا یہ ہے کہ کمبل تو میں نے چھوڑ دیا ہے کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔
عبد الصمد کو پیکر تراشی کا ہنر بھی معلوم ہے۔ وہ غیر محسوس اشیاء تک کی پیکر تراشی کر ڈالتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ پڑھنے والے کو محسوس معلوم ہوں۔ جیسے یہ جملے دیکھئے
’’ بس میں خاموشی طاری تھی لیکن یہ خاموشی کراہتی ہوئی سی لگ رہی تھی اختر حسین جیسے خاموش طبع انسان کو بھی یہ کراہ کان کے پردے پھاڑنے کے برا محسوس ہورہی تھی‘‘ وہ بار بار خط کو پڑھ کے اس خوشی کو اپنے ہاتھوں سے چھونا چاہتا تھا جواچانک اس کی جھولی میں آ گراتھا‘‘
عبدالصمد کا اسلوب
عبدالصمد کا اسلوب یوں تو پورے ناول میں سادہ سلیس اور بیانیہ ہے مگر کئی جگہ جذبات میں کھوکر یا واقعے کی مناسبت سے وہ شاعرانہ اور فلسفیانہ نثر بھی لکھے گئے ہیں جو کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی کے اسلوب کا حصہ ہے اور قرۃالعین حیدر کی منطقی اور استدلالی گفتگو میں ملتی ہے۔ شاید کرشن چندر قرۃالعین حیدر کے اسالیب کے امتزاج سے عبد الصمد نے اپنا منفرد رنگ پیدا کیا ہے۔ اس رنگ سے ان کے اسلوب میں ایک خاص متانت وقار اور شیر نی پیدا ہو جاتی ہے اور ہمیں عبدالصمد کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔
’’تاروں پر جب اس نے اپنی مانوس انگلیاں پھیریں تو ارتعاش کی ہلکی ہلکی سی صدائیں بلند ہوئیں، ان میں الفاظ نہیں تھے۔ شاید الفاظ پچھل کر راگ بن گئے تھے۔ راگ کی زبان الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔ کون کس کامحتاج ہوتا ہے اور کس کا نہیں ہوتا لیکن سب ایک خدائی کے محتاج ہوتے ہیں اور سے محسوس کرنے والے ...... اونچائی سے بہتا ہوا وقت... کتنی چٹانوں پر چلتا ہوا کتنی چٹانوں کوتوڑتا جھاگ اڑاتا ہے۔اۓ وقت کہیں پر تو ٹھہر۔
ابّا کی ساری زندگی ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا ایک مکمل باب ہے جو وطن دوستی کے دعوں کی ضخیم کتابوں پر سُلگتی ہوئی ٹکیہ کی طرح رکھا ہوا ہے۔ وطن سے محبت کر نا ایمان کا ایک جز ہے اور وطن کے لئے کڑھنا ان عبادت
دوگز زمین سے پتہ چلتا ہے کہ عبد الصمد کا مطالعہ بہت وسچ ہے اور انہیں زبان و بیان پر بھی قدرت حاصل ہے۔ انہوں نے مشاہیر ادب کے ساتھ ساتھ زندگی کا سماج کا گہرا مطالعہ کیا ہے ان کے مشاہدات بار یک اور عمیق ہیں۔اس لئے اپنی کہانی کو تجربات و مشاہدات کے ساتھ انہوں نے حقیقی رنگ دے دیا ہے اس پر تخیل کی کارفرمائی کا شک ہی نہیں ہو پاتا۔ اس میں ان کے مخصوص اسلوب کی شگفتگی اور سلاست کا بھی بڑا اہم رول رہا ہے۔
عبد الصمد کا دوسرا ناول مہاتما
عبد الصمد کا دوسرا ناول مہاتما موجود ہ تعلیمی نظام کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا احاطہ کرتا ہے۔ بہار میں اعلی تعلیم اقتدار پرستوں اور تجارتی ذہن رکھنے والوں کے ہاتھ کا کھلونا بن گئی ہے۔ اس صورت حال کا ذمے دارکون ہے؟ سیاست داں، والدین یا خو داسا تذو؟ ناول اس تشویشناک صورت حال کا کوئی حل پیش نہیں کرتا بلکہ اسکی بھر پورتر جمانی کرتا ہے اور مسئلہ کی شدت کا احساس دلاتا ذ ہنوں پر ایک بڑا سوالیہ نشان ثبت کرتا ہے۔ ناول کا عنوان مہا تما بے ایمان ضمیر فروش،گھناؤنے کردار کے حامل اساتذہ کے لئے طنز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خوابوں کا سویرا بہار کے شہر گیا کے ایک زمیندار کنبے کے عروج و زوال کی سرگذشت ہے۔ اس میں دو بھائیوں کی جوڑی ہے منا لال اور پنالال۔ ان میں منالال سیکولر اور پنالال فرقہ پرست ہے۔ مصنف نے ناول میں سیاست اور خاص طور سے تقسیم ہند اور اس کے بعد کی سیاست کا بڑا گہرا اور تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ اس عہد کے نوجوانوں کی زندگی کے نشیب وفراز اور پیچیدگیاں، تعلیمی گراوٹ ملازمتوں میں رشوت خوری اور مذہبی فسادات اور مغربی و مشرقی تہذ یوں کا ٹکراؤ جیسی بہت ساری باتوں کو بھی ملا کر ناول کا تانا بانا تیار کیا گیا ہے۔
عبدالصمد کے تیسرے اول’’ مہاساگر‘‘ کا موضوع
عبدالصمد کے تیسرے اول’’ مہاساگر‘‘ کا موضوع موجودہ ہندوستان میں پنپنے والی وہ نفرت و عداوت ہے جس کی جڑ یں ماضی میں پیوست ہیں۔ مصنف نے بڑی چابکدستی سے بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ ذہنیت اور نوجوان نسل کے دماغوں میں سرایت ہوتے ہوۓ زہر کی تصویر کشی کی ہے۔ ناول میں سیکولر سوجھ بو جھ اور سلجھے ہوۓ ذہن کے افرادبھی ہیں جن میں نو جوان رمیش کے علاوہ گزرتی ہوئی نسل کے و یاس جی منشی الہ دین اور پروفیسر یادو جی ہیں لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ گزرتی ہوئی نسل کے افراد آخر کب تک رہیں گے ........ ’’دھمک‘‘ عبد الصمد کا قابل ذکر ناول ہے اوران کے فن کا نیا نشان قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں سیاسی بساط پر مہروں کی طرح رقص کرنے والے کرداروں کے ذریعہ بہار کے سیاسی کھیل، کرپشن اور شرمناک سرگرمیوں کے مختلف رنگوں کو کئی زاویوں سے پوری فن کاری کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ ناول کا آغا ز مرکزی کردار راجو کے انقلابی حوصلوں اور جوش میں نکلے اس کے بے رابط جملوں سے ہوتا ہے جو گاؤں کی سات دلت لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دری پر انتقام کی آگ میں جل رہا ہے اور اسی تپش میں منتری کے چہرے پر کالک پوت دیتا ہے۔ یہیں سے سیاست کا کھیل شروع ہوتا ہے اور ایک جوشیلا انقلابی نوجوان سیاسی چالوں اور مہروں کا شکار ہو کر اس تالاب کی مچھلی بن جا تا ہے جہاں کا سارا پانی گندا ہے اور جس پر سیاسی مگر مچھوں کا قبضہ ہے۔ فنی اعتبار سے یہ ناول کئی خوبیوں کا مالک ہے۔ کردار نگاری، مکالے، فکر و نظر اور واقعات کا ربط وتسلسل ایسے کئی خصائص ہیں جومتوجہ کرتے ہیں۔ ایک بات اور اہم ہے کہ عبد الصمد کے تمام ناول ایک تخصیص لئے ہوۓ پس منظر کے حامل ہوتے ہیں تقسیم ہند، ترک وطن،فسادات متوسط طبقہ کے معاملات و مسائل، ان کی معیشت، بدحالی، پسماند کی تعلیمی پسماندگی،خوداعتمادی کا فقدان، عام مایوسی،خوف و ہراس اور جد و جہد سے پر زندگی۔ مگر دھمک‘‘ ان کے تمام ناولوں سے الگ ہے اور اس کا پس منظر سیاست اور سیاسی بدعنوانیوں میں گھر ہوا سماج ہے۔
عبدالصمد نے اپنے صوبے کے سیاسی گلیاروں اور اس کے شب وروز کو قریب سے دیکھا ہے اور اس کے اندھیروں اجالوں کو بڑی سادگی و بے تکلفی سے سلیس شفاف اسلوب میں پڑھنے والوں تک پہنچا دیا ہے۔
عبد الحمد اپنے ناولوں میں آرائشی اور Polished زبان سے احتراز کرتے ہیں اس لئے ان کے ہر ناول کا اسلوب سادہ اور عوامی ہے۔ اگر ان کے ناولوں سے عوامیت لے لی جاۓ تو موضوع پسر جائے گا۔ عہد جدید کے سلگتے ہوئے گھر درے موضوعات ہوں تو مفرس و معرب اور قلعی دار زبان واسلوب کی تلاش سستی جمالیاتی حسن پر ہوگی۔ عبدالصمد ان کھردرے موضوعات کو نبھانے کے لئے زیادہ Committed دکھائی دیتے ہیں اس لئے جذبات واحسات کو کسی ایہام وعلامت با تمثیل واستعارے کی چادر نہیں دیتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے تمام ناول اسلوب کے انتہارے یکساں ہو گئے ہیں اور دوگز زمین کی طرح ہی سادگی سلاست اور صفائی کی خصوصیات رکھتے
عبدالصمد کے اسلوب
عبدالصمد کے اسلوب کی طرح ان کے ناولوں کے بعض واقعات اور موضوعات میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ تکرار اور یکسانیت کی یہ کیفیت انہیں دو گز زمین‘‘ سے آگے بڑھنے میں رکاؤ پیدا کر رہی تھی کیونکہ دوگز زمین‘‘ کے بعد ان کا جوفکری اور اسلوبی بہاؤ دھیمے انداز میں بہت اطمینان سے آگے بڑھتا تھا مہا سا گر اور دھمک تک آتے آتے اس میں ایک قسم کا ٹھہراؤ پیدا ہو گیا۔ شاید اس کی وجہ ان کا یہ خیال ہو کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہترین اظہار دوگز زمین میں ہی کر چکے اب آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ یا شاید وہ کسی ذہنی Fixation کے شکار ہو چکے تھے ایسے میں انہیں ممتاز ناقد پروفیسر وہاب اشرفی نے مشورہ دیا کہ عبد اللهمد کو ناول نگار کی حیثیت سے Survive کرنا ہے اور دوگز زمین‘‘ سے آگے نکلنا ہے تو انہیں دوسری راہ اختیار کرنی پڑے گی۔ سیاسیات نہیں۔ معاشیات نہیں۔ Sociology ہیں Sexology۔ جی ہاں! اب انہیں Sexology or پر لکھنا پڑے گا سیکس پر، یہ ضروری ہے نقاد پینہ یکم تا ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ )
یعنی موضوع کی تبدیلی ہی ان کی فکر اور اسلوب میں ندرت پیدا کرے گی اور ان کیلئے آگے کے راستے ہموار ہوں گے۔عبد الصمد پر اس مشورے کا بڑ اثر ہوا اورانہوں نے دو ناول اسلوب اور موضوع کی ندرت کے ساتھ پیش کیا۔ چو کہ عبدالصمد کے تمام ناول ایک تخصیص لیے ہوئے پس منظر اور اسلوب کے حامل ہوتے ہیں اس لیئے بکھرے اواراق اور شکست کی آواز نے قارئین کو اسلوب اور موضوع کی ندرت کی وجہ سے حیران کر دیا۔ بکھرے اوراق موضوع کے اعتبار سے تو وہی سیاسی اور معاشرتی کرپشن پیش کرتا ہے جس کے لیے عبدالصمد مشہور ہیں۔ اس میں بھی انہوں نے خوف و دہشت کے موجودہ ماحول کو ہمہ جہت رنگ میں دیکھنے دکھانے کی کوشش کی ہے مگر یہاں ان کا اسلوب استعاراتی اور علامتی ہے۔ عبدالصمد شروع میں اپنے استعاراتی اور علامتی افسانوں کے لیے خاصے مشہور ہے ہیں مگر ناول میں انہوں نے یہ ا نداز پہلی مرتبہ اختیار کیا ہے۔ یہ اسلوب ناول میں بہت کامیاب تو نہیں ہو سکا مگر اس کے ذریعہ انہوں نے ناول کو ہماری موجودہ زندگی کا آئینہ خانہ بنانے میں کامیابی ضرور حاصل کیا۔شکست کی آواز اسلوب کے بجاۓ موضوع کے سبب حیران کر تا ہے کہ اس میں عبدالصمد پہلی بار سیاسی اور سماجی گلیاروں سے نکل کر انسان کے نفسیاتی اور جنسی مطالعے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے ندیم نام کے ایک Introvert نوجوان کی شخصیت میں پوشید و جنسی شعور کی پیچیدگیوں کو وقوعوں کے ذرایہ تدریجی طور پر کامیابی سے دکھایا ہے۔ ندیم چونکہ فطری طور پر دروں میں (Introvert) ہے، وہ لڑکیوں سے گھبرا تا ہے۔ طبعیاتی تقاضے کے تحت جنسی جذبے کی فزوں تری ندیم کی شخصیت میں ایک کشاکش پیدا کرتی ہے۔ وہ نوری کو نیم عریاں انداز میں دیکھتا بھی ہے مگر جب وہ اپنا جسم دکھانے لگتی ہے تو گھبرا بھی جاتا ہے۔ ناظمہ قریب آنے لگتی ہے تو خود فاصلہ قائم کر لیتا ہے۔ مگر یہی جذ بہ اس وقت بیباکی محسوس کرتا ہے جب وہ نوری کو ماسٹر کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیتا ہے۔ جب یہ باندھ ٹوٹتا ہے تو وہ اپنے اندر ہمت بٹور لیتا ہے کہ عورت کو مختلف روپ میں دیکھ سکے۔اختری کا آنا، پھر بچے کو دودھ پلانا، پھر غُسل خانہ میں نہانا، یہ ساری تصویر یں ندیم کی شخصیت میں پوشیدہ برف کی سل کو پگھلاتے رہتی ہیں اور تصورات اور حقیقت کا ٹکراؤ سے آگہی کی نئے جہتوں سے آشنا کرتا ہے۔ عبد الصمد نے ندیم کی آہستہ خرام تبدیلیوں کو متعدد چھوٹے چھونے خارجی واقعات کے ذرایہ فطری انداز میں پیش کیا ہے۔ شخصیت اور اس کی دروں بینی کی نفسیات کا گہرا مطالعہ اس ناول کا اہم ترین وصف ہے جوعبدالصمد کی ناول نگاری کی ایک نئی مگر دلچسپ جہت سے روشناس کراتا ہے۔
عبد الصمد کے ان تمام ناولوں کے مطالعے سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے بیسویں صدی کے اواخر میں اردو ناول کی طرف جو پیش قدمی کی تھی وہ اکیسویں صدی میں بھی قائم رہی ہے۔ نئی صدی میں وہ ناول کی طرف زیادہ سنجیدگی سے متوجہ ہوۓ ہیں اس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہمیں کوئی بڑا اور تاریخی اہمیت کا ناول بہت جلد دیں گے جود و گز زمین کے بعد ان کے سفر کا نیا اور نستاز یادہ نمایاں نشان ثابت ہوگا۔
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے