امراؤ جان ادا کا تنقیدی جائزہ Umrao Jaan Ada Ka Tanqeedi Jaiza in Urdu
امراؤ جان ادا کو اردو کے مشہور اور پہلے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے پھر بھی اس بات میں کئی سالوں سے اختلاف ہے کہ اردو کا پہلا ناول کون ہے۔ کچھ لوگ مرزا ہادی حسین رسوا کے امراؤ جان ادا کو اُردو ادب کا پہلا ناول قرار دیتے ہیں تو انہیں میں سے بیشتر یا ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبۃ النصوع کو اُردو ادب کا پہلا ناول کہتے ہیں۔ حالانکہ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبۃ النصوع کو اتنی شہرت اور زندگی حاصل نہیں ہو سکی جتنی شہرت اور مقبولیت امراؤ جان ادا کو حاصل ہوئی۔
انیسویں صدی کے نصف دوم میں جب اردو کے ناول نگاروں کا ایک سلسلے سے رابطہ ہوتا ہے، اس وقت سماجی اور مذہبی اصلاح کے ساتھ ساتھ ماضی کی مہتم بالشان روایتوں کی یادایسے حتمی موضوعات بن گئے تھے جن سے الگ کسی لکھنے والے کی نگاہ نہیں جاتی تھی۔ ڈپٹی نذیر احمد، رتن ناتھ سرشار اور عبدالعلیم شر کے علاوہ الطاف حسین حالی، شادعظیم آبادی علی سجاد عظیم آبادی اور رشیدۃ النسا، سب کے سب مذہب و اخلاق اور رشد و ہدایت کے پروں سے اردو ناول کے کارواں کواڑار ہے تھے۔
اُمراؤ جان ادا ( امراو جان ادا ) کے نام سے مرزا محمد ہادی رسوا نے انیسویں صدی کے آخری برسوں میں ایک ناول، نیا قصہ پیش کیا تب اندازہ ہوا کہ کس طرح ناول نگار اورافسانہ نگار اپنی فنی مہارتوں کی مدد سے زندگی کی سچی تصویر بناتے ہیں۔
امراو جان ادا اپنے اختصار، جامعیت، ارتکاز اور رقت آمیز پس منظر کی وجہ سے اب بھی ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اپنی تازگی اورفن کاری میں بے مثال ہے۔ مرزا رسوا نے بہت سارے ادبی ناول لکھے اور دیگر افسانوی تحریر میں بھی اچھی خاصی شہرت اور کامیابی حاصل کی لیکن انھیں صرف امراو جان ادا کی وجہ سے جانا گیا۔
اُمراؤ جان ادا ( امراو جان ادا ) کا پلاٹ | امراو جان ادا کے قصّے کہانی کا خلاصہ
امراو جان ادا ایک طوائف کی کہی ہوئی کہانی ہے۔ اس کے اکثر اہم کردار بھی اس طبقے سے آتے ہیں۔ وہ کردار جن میں زندگی کی رمق ہے اور ناول پر فیصلہ کن طریقے سے جو اثر انداز ہوتے ہیں، وہ سب کے سب کوٹھوں سے ہی آتے ہیں۔ مرزا رسوا نے جب یہ ناول لکھا، اس وقت ہندستانی سماج اور بالخصوص اور ھ میں طوائفوں کی سماجی حیثیت کے بارے میں کوئی بحث نہیں شروع ہوئی تھی۔ اس کے باوجود مرزا رسوا نے ان کی زندگیاں قلم بند کر نے کا جونشا نہ امراو جان ادا میں طے کیا، وہ شاید وقت سے آگے کی بات تھی۔ حالاں کہ کم از کم اودھ کے ماحول میں اور خاص طور پر شرفا کے گھر آنگن تک طوائفوں کے دخل سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کو ٹھے پر آنے جانے میں صرف عیش کوشی اور بداخلاقی ہی اسباب نہ تھے بلکہ شریف گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں تھوڑے تھوڑے وقفے کے لیے ان کوٹھوں پر اس لیے بھیجے جاتے تھے کیوں کہ لوگ مجلسی آداب سے واقف ہو جائیں۔ اس سچائی کے باوجود کیا طوائفنیں اودھ کی سماجی زندگی میں کوئی مساویانہ وجود رکھتی تھیں؟ ہر گز نہیں۔
اُمراؤ جان ادا ( امراو جان ادا ) میں موضوع کی پیش کش
موضوع کی پیش کش میں مرزارسوانے اودھ کے ماحول کے اسی تضاد پر انگلی رکھی ہے ۔ پورے ناول میں پس منظر کے طور پر لکھنو کے بدلنے،لحظہ بہ حظ منتشر ہونے اور کسی ایسے راستے کی طرف بڑھنے کے آثار ملتے ہیں جہاں شاید ا ندھی گلی ہی میسر آئے ۔ کیا اس پس منظر کو نوابین کے محلوں سے نہیں دکھایا جا سکتا تھا ؟ آخر رسوانے خانم کے کو تھے کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ اگر ان کا مقصد اودھ کے رو بہ زوال ماحول کی عکاسی تھا؟ انہی سوالوں میں مرزا رسوا کی وسیع النظری اور دوربینی کی کے مظاہر ہمارے سامنے آتے ہیں ۔
مرزا رسوا نئے زمانے کے آدمی ہیں۔ روائتی تعلیم سے سے الگ سائنس کی جدید تعلیمات اور ریسرچ سے ان کا سروکار ہے۔ قصے کا جو دور ناقدین نے مختلف قرائن کے ساتھ طے کیا ہے اس اعتبارسے یہ کہانی 1857 سے پہلے شروع ہو جاتی ہے۔کہنا چاہیے کہ اودھ کی شمع آخری باراپنی تیزلو کے ساتھ موجود ۔حالانکہ یہ واقعہ بعد کا ہوتا تو امراؤ جان ادا کا قصہ اتنا اطمینان اور سکون کے ساتھ آگے نہیں بڑھتا ۔ اتھل پتھل اور انتشار کے عناصر کافی زیادہ ہوتے لیکن رسوا جس وقت اسے لکھ رہے ہیں، انھیں پتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ اس تہذیب کے اجزا بھی زوال کے راستے پر تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ چکے ہیں ۔ پورے نا دل میں اودھ کی تہذ یب کے ضمنی دفاع کے باوجودمر زا رسوا نے ایک حقیقت پسندانہ رویہ اپنارکھا ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ رسوا نے زوال کی کہانی کو امراو جان کی زبانی کیوں سنایا۔ وہ چاہتے تو واجد علی شاہ کی آنکھوں سے بھی یہ منظر دیکھ سکتے تھے اور انھیں ہی اس قصے کا راوی بنا سکتے تھے لیکن وہ جدید ذہن کے آدمی تھے ۔ ان کے دماغ میں اودھ کا زوال اگر بنیادی استعارہ ہے تو صرف یہی کافی نہیں ۔ اودھ کے معاشرے کو جن کے وجود نے رنگ و نور کی شعاعوں سے بھر دیا تھا، کیا زوال کے اس لمحے میں انھیں بھول جایا جائے ۔ اس وقت تک اُن کی نصف درجن کتابیں سامنے آچکی ہیں جن میں معاشرہ اودھ کے مخصوصات اور طوائفوں کے سماجی زندگی میں سرگرم وجود کے قصے موجود ہیں ۔ کیا ان طوائفوں کی زندگی پر زوال کی کوئی پر چھائیں پڑ رہی تھی؟ مرز ارسوا نے اودھ کے زوال کے ساتھ ساتھ ان کوٹھوں کے زوال کو بھی اپنے سامنے رکھا۔
رسوا منظّم پلاٹ نگاری کے طرف دار ہیں۔ انھوں نے اپنے بعض مضامین میں قصہ نویسی کے جواصول وضوا بط تحریر کیے، ان میں بھی جامعیت اور ارتکاز کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ طوائف کے کوٹھے سے قصے کو بننے میں لکھنے والے کے لیے کئی طرح کی سہولیات موجود تھیں۔ یہاں نوابی معاشرے کے منتخب اصحاب اپنے آپ چلے آتے تھے۔ اس کے علاوہ غیر اشراف طبقے کے افراد بھی اپنی اپنی وجوہات سے یہاں پہنچ جاتے تھے۔ اس طرح مرزا رسوا کو بڑے نواب صاحب سے لے کر ایک پیشہ ور ڈاکو تک کے کردار اس کو ٹھے پر ہی مل جار ہے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ اچھے خاصے مذہبی اور مقطع مولوی بھی یہاں حاضر ہیں۔ طوائفوں میں بھی نہ جانے کتنے انداز واسلوب کی شخصیات یہاں موجود ہیں۔ کسی کا ماضی شاندار رہاہے تو کسی کا آنے والا دن روشن تر ہوگا کسی نے خود سے آنا طے کیا تو کوئی ہے جسے زبردستی اس ماحول میں پہنچادیا گیا۔ کسی کی طبیعت یہاں لگ گئی ہے اور کوئی ایسا ہے جو اس ماحول میں رہتے ہوۓ بھی رات دن گھٹ رہا ہے۔ ظاہر ہے، معاشرے کی یہ رنگارنگی شاید ہی کسی دوسرے مقام سے ناول نگار دکھا پاتا۔
امراو جان ادا ناول کا موضوعات
امراو جان ادا ناول کا موضوعاتی اعتبار سے سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ سماج میں عام طور پر جسے بدنام اور غلط کاری کا منبع سمجھا جا تا ہے، اسے مرزا رسوا نے موضوع بنایا۔ رسوا سماج کے اس تضاد کو سمجھتے ہیں جس میں ان طوائفوں سے اخلاقی اور غیر اخلاقی استفادہ کرنے میں سب کی سرگرمیاں رہتی ہیں لیکن انسانی زندگی اور معاشرتی حقوق کی ترازو پر اپنے برابر تولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہوتی۔ رُسوا نے یہ حوصلہ دکھایا اور امراؤ جان ادا کے پورے قصے کو اسی معاشرت اور ماحول سے پورا کیا یا۔
اودھ کے زوال اور انتشار سے ان کی ہمدردیاں ظاہر ہیں لیکن ان کو ٹھوں پر بھی زوال کا ایک تیز رفتار حملاہے اور ان کا نظام بھی جلد ہی درہم برہم ہو جاۓ گا، اس لیے ناول نگار کمال ہمدردی کے ساتھ ان طوائفوں کی زندگیوں کے مختلف پہلوؤں کوا بھارتا ہے۔ پورے ناول میں انھیں انسانی چہرہ اور حسن و حرکت عطا کر کے رسوا نے اپنی سماجیاتی فکرکوانقلاب آفر میں پرواز عطا کی ہے۔
یہ ناول اپنے موضوع کے ساتھ انداز فکر کی وجہ سے بھی ممتاز قراردیا گیا۔ ۱۸۶۹ء سے آج اکیسویں صدی کی ابتدا تک اردو فکشن میں امراو جان ادا سے الگ کوئی ایسا کردار دکھائی نہیں دیتا جس پر سماج کی ہزار تہمتیں ہوں اس کے باوجود ناول نگار نے اسے ہی مرکزیت عطا کر رکھی ہو۔ بعض ناقدین نے مرزا رسوا کے ایسی محفلوں کا رسیا ہونے کی بات کہی ہے۔ اس لیے زیادہ توجہ اس امر پرنہیں ہونی چاہیے کیوں کہ امراو جان ادا میں کوئی محفل طرب نہیں برپا ہوتی۔اگر ایک مشاعرے کا ذکر طویل تر ہو گیا ہے تو اس میں بھی ادبی موشگافیاں اور چھیڑ چھاڑ کے پہلو زیادہ ابھرتے ہیں اور مختلف عمر اور انداز کے اہل قلم کے درمیان نظریات کی سطح پر جو آویزشیں ہوتی ہیں، اس کا زیادہ ا ظہار ہوا ہے۔
امراو جان ادا ایک طوائف کے معاشرتی زوال کی کہانی ہے۔ اسی لیے اس کا مرکزی کردار حلقہ اودھ کا کوئی شہزادہ نہیں بلکہ گانو دیہات سے ایک سازش میں پھنس کر خانم کے کو ٹھے تک پہنچنے والی امیرن ہے۔ یہ دل چسپ بات ہے کہ امراو جان ادا میں تمام اہم کر دار طبقہ نسواں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس ناول کے کسی مرد کو رسوا نے انفرادی طور پر توجہ کا مرکز بنایا ہی نہیں۔ طرح طرح کے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کوٹھے پر مختلف طبقوں کے افراد اپنے اپنے مزاج اور ارادے کے مطابق کام کر کے واپس ہو جاتے ہیں لیکن پڑھنے والے کی نگاہ خانم کے کو ٹھے کے مختلف کمروں میں مقید روحوں کی بے چینی پر ٹکی رہ جاتی ہے۔ کوئی پرندہ ہے جو پھڑ پھڑا کر رہ جا تا ہے۔ چاہیے تو تھا کہ اس کا گھر آسمان میں بن جائے لیکن وہ خانم کے کوٹھے کی بند زندگی میں سمٹ گیا۔ رسوا خود بھی یہی دکھانا چاہتے ہیں۔ مختلف عمر کی طوائفوں کے مزاج اور سوچنے کے طریقے میں بھی خاصا فرق ہے۔اس کے سہارے ناول نگار وقت اور حالات کی تبدیلی کے تناظر کو قائم کرتا ہے۔
مرز ا رسوا ان کو ٹھوں کی زندگی کو عام لوگوں کی طرح ایک جھٹکے سے رد نہیں کرتے۔ اودھ کے پرانے معاشرے میں ان کی اہمیت کے وہ قائل ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ وہ انھیں ایک آزاد ا کائی تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی سماجی حیثیت اور پیدائش سے موت تک کے سفر کے مختلف پڑاؤ پر ناول میں شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں۔ طوائفوں کو آزادانہ اکائی تصور کرنا اور ان کی زندگی کی ضروریات اور مسائل کو نگاہ میں رکھنا اس ناول کے ایسے پہلو ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ صدی میں اس پر بار بار خصوصی توجہ دی گئی۔ مرز ارسوا نے اس زمانے کی پیچیدگیوں میں پڑنے کی زیادہ ضرورت نہیں سمجھی جب امراو جان کا سورج نصف النہار پر تھا۔ رسوا امراء کی ابتدائی پرورش و پرداخت کی ب کجی اور عمر کی ڈھلان پر اس کے تھکے ہارے قدموں کا تجز یہ زیادہ کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک پہلو ہے کہ رسوا کو ٹھوں کے مسئلوں کو مکمل شکل میں پہچاننا چاہتے ہیں۔ ناول میں بزم طرب، رقص و سرود کی محفلیں اور عشق وہوس کی سرمستیاں ایک سطح پر ہی موجود ہیں۔ شمع محفل امراو اور دیگر دو شیزائیں ہی ہیں، اس کے باوجود ناول کے ایک ایک لفظ سے اس معاشرت کا انتشار اور سب کچھ الٹ پلٹ جانے کا درد اور سوز و گداز اس طاقت سے اُبھرتاہے کہ پڑھنے والے ناول کے اصل سوز تک خود ہی پہنچ جاتا ہے۔
امراؤ جان ادا جب لکھا گیا اس وقت اردو میں ناول نگاری کا کوئی تنقیدی پیمانہ نہیں تھا سب اپنے اپنے مزاج اور انداز سے آگے بڑھ رہے تھے مگر مرزا رسوا پلاٹ اور کرداروں کی سطح پر فنی اعتبار سے چابک دست ہونے کا مکمل فریض ادا کرتے ہیں۔ رسوانے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ ناول کے مختصر پلاٹ کو بے وجہ طول دیا جائے۔ انھوں نے جو پس منظر منتخب کیا تھا، اس کے آئینے میں وہ چاہتے تو ہزاروں اور چہرے انھیں مل سکتے تھے جن سے ناول مزید پھیل سکتا تھا لیکن ایک ہوش مند ماجرا نگار کے بہ طور مرز ارسوا قضے کی مرکزیت اور اثر آفرینی کو اولیت دینا چاہتے تھے۔ اردو میں اب تک جو ناول یا تمثیلیں لکھی گئی تھیں، ان میں فنی سطح پر ایسے فیصلے کرنے کا رجحان باغ و بہار کے علاوہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ زندگی کے الگ الگ مرقعوں کے پیچھے سرشار کی طرح بھاگنے سے زیادہ بہتر رسوانے سمجھا کہ ایک تصویر پیش کی جائے لیکن وہ زندگی سے بھر پور ہو اور اس میں زندگی کی دھوپ چھانو کا تناسب بھی معلوم ہو سکے۔ امراو جان ادا ایک ایسا ناول ہے جس کے بیان میں نہ کہیں بے جا طوالت ہے اور نہ کبھی اپنے مرکزی کردار سے دو چار قدم دور جا کر ناول کا کوئی اور سرا ڈھونڈا جاسکتا ہے۔
امراو جان ادا کی تکنیک
تکنیک کی سطح پر مرزا رسوا نے ایک بڑا کام یہ کیا کہ اس ناول کوفلیش بیک (Flash Back ) تکنیک میں مکمل کیا۔ کہانی موجود سے شروع ہوکر ماضی تک پہنچتی ہے اور پھر گھوم پھر کر دنیا جہان کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ قصّہ اپنے آپ نہیں ابھرتا بلکہ ناول کا مرکزی کردار اپنے واقعات خود سناتا ہے۔ڈ پٹی نذ یراحمد نے اپنے ناول ایامی میں Subjective reportage کی ایک تکنیک ابتداء استعمال کی تھی لیکن امراو جان ادا اس اسلوب کا شاید نقطہ عروج ہے۔ جس کی زندگی پر سب کچھ بیت جاۓ، اسے ہی اپنی کہانی سنانے کی ذمہ داری بھی عطا ہوتو اس سے زیادہ سچی اور پر اثر کون سی بات ہوگی۔ اس ناول میں احوال، احتیاط اور توازن کا دامن اس وجہ سے بھی نہیں چھوڑ سکتے کیوں کہ قضے کی بنیادی رو امیرن کے ہاتھ میں ہے۔ اس امیرن کے ہاتھ میں، جس کی زندگی کے بننے بگڑنے میں پورا سماج شریک رہا ہے لیکن یہ عورت شکست کو مقلد نہیں بجھتی اور مشکل حالات کے باوجود زندگی جینے کا مکمل حوصلہ رکھتی ہے۔
اس ناول کے تعلق سے ایک سوال ناقدین کو کافی پریشان کرتا ہے کہ یہ قصہ کتنا سچ اور کتنا جھوٹا ہے ناول کا پیش لفظ اور مرزا رسوا کے آشنا لوگوں کے بیانات قارئین کو اور بھی الجھاوے میں ڈال دیتے ہیں۔ امیرن نام کی طوائف تھی یا نہیں یا جیسا کہ رسوا نے کہا ہے کہ یہ قصہ ان کا نہیں بلکہ امیرن بولتی جاتی تھی اور وہ اسے لکھتے جاتے تھے۔ علی عباس حسینی اورتمکین کاظمی قصّے کی سچائی پر زور دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف مختلف ناقدین اسے عام ناول کا قصہ سمجھتے ہیں۔ ناول سے بہرحال زمانہ اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ آج شاید یہ فیصلہ کیا ہی نہیں جا سکتا کہ حقیقت کیا ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس قصے میں حقیقت کا کوئی معاملہ نہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسوا نے ایسی پیش بندی کیوں کی۔
جس زمانے میں رسوا یہ ناول لکھ رہے تھے اس زمانے تک اردو میں غیر حقیقی زندگی کی ترجمانی کرنے والی داستانوں کی بہتات تھی۔ نذیراحمد کے اصلاحی قصے حالاں کہ حقیقی زندگی کے تر جمان تھے لیکن بیش تر بے رنگ تھے۔ ایسے ماحول میں مرزا رسوا نے ناول کوقبول عام کی سند دلانے کے لیے یہ ڈارامائی کیفیت پیدا کی کہ یہ کوئی خیالی قصہ نہیں یے ایسی تحریر بھی نہیں جسے عام ناول نگاری کہاں جائےاس قصے پر سب کا ایمان اور بیان مرتکز ہو، اس کے لیے مرزا رسوا نےنے خوب ترکیب نکالی کہ یہ قصہ امیرن نے خود اپنی زبان سے لکھایا ہے۔ فکشن کی تاریخ میں ایسی ڈرامائیت اور بھی کئی کتابوں میں موجود ہے۔ اس لیے ناول یا افسانہ پڑھنے والے سنجیدہ قارئین اسے ناول نگار کے دعوے کے برخلاف ایک عام قصے کی طرح ہی پڑھیں گے۔ ہاں، مرز ا رسوا نے یہ ڈراما پیدا کر کے اپنے ہزاروں اور لاکھوں غیر تربیت یافتہ قارئین کے دل میں امیرن کے لیے ہمدردی کا ایک اضافی حصہ بھی ڈال دیا۔ فنِ ناول نگاری کے اعتبار سے یہ تکنیک ناول نگار کو کامیابی کے دو چار قدم اور عطا کرتی ہے۔
ناول نگار کی حیثیت سے مرزا رسوا کواردوادب میں جو مقام حاصل ہوا فنی سطح پر اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بنیادی جو ہر کردار نگاری ہے۔ امراو جان ادا کا پلاٹ مقصود بالذات قصہ گوئی نہیں بلکہ سب سے زیادہ کرداروں کے مکالموں سے گفتگوآ گے بڑھتی ہے۔ اس لیے امراو جان ادا کی تمام خوبیاں یہاں تک کہ قصے کا پھیلا و بھی کرداروں کی سطح سے سامنے آتا ہے۔اردو ناول کی پچھلی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کر دار اتنے سلیقے سے اورمحتاط طریقے سے گڑھے گئے ہوں۔ ڈپٹی نذیر احمد اور سرشار نے ایجاز بیانی کا وہ ہنر شاید پایا ہی نہیں تھا۔ مرزا رسوا نے اپنے کرداروں کو ان کی طے شدہ شکل میں ابھارنے کے لیے کافی محنت کی ہے۔ رسوا نے یہ نہیں ہونے دیا کہ کردار جیسے تیسے منزل مقصود تک پہنچ جائیں بلکہ انھوں نے ہر کردار کی ایک طے شدہ زندگی،اس کے خواب اور مسائل، حالات کا جبرا اور زندگی کی مختلف آویزشیں اپنی تحریر میں شامل کیں۔ اس لیے امراو جان ادا کے کر داراردو ناول کی تاریخ کے کل وقتی عظیم کر دار قرار دیے گئے۔ آج جب دور اول سے اردو ناول کے اہم کرداروں کی فہرست تیار کی جاتی ہے تو اس میں ہوری، نعیم، گوتم جیسے کرداروں کے مقابل امراو جان کو بھی پیش نظر رکھا جا تا ہے۔
یہ ناول فنی سطح پر جدت پسندی کا اشار یہ ہے۔ اس لیے کردار بنانے میں بھی حسن ترتیب کے ساتھ ضروری کاٹ چھانٹ کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مرزا رسوا کا یہ مزاج نہیں کہ دہ سب کچھ ایک ہی بار میں پیش کر دیں۔ وہ اشیا اور اشخاص کو مختصر اکائیوں میں بانٹ کر دیکھتے ہیں اور تب ایک کلی شکل بناتے ہیں۔ امراو جان ایک دن میں ایسی زندہ جاوید کردار نہیں بن جاتی ہے۔ اس کے کردار کی گتھیاں رفتہ کھلتی ہیں اور آسانیاں پیچیدگیوں میں بدلتی جاتی ہیں۔ ایک شریف گھرانے کی دوشیزہ جس کا منگیتر حسین اور جوان ہے لیکن وقت کے طوفان کے سہارے وہ اچانک ایک ڈیرے دار طوائف خانم کے کوٹھے پر پہنچا دی جاتی ہے۔ اب نئے سرے سے اسے اپنی زندگی شروع کرنی ہے جس کے نتیجے کے بارے میں اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔لیکن اُمراؤ کی ایک بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ حالات اور وقت کی تبدیلیوں کے ساتھ جی مر کر ہی سہی خود کو بدل لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔شاید اس نے اپنی زندگی کے الگ الگ خانے بنا رکھے ہوں۔مرزا رسوا کا کمال یہ ہے کہ عمران کو زندگی کے سبھی الگ مرحلوں میں فطری طور پر کامیاب ثابت کر دیتے ہیں۔
امراو جان بیٹی اور بہن تو پہلے ہی سے ہے اس کے دل میں کسی کی بیوی اور کسی کی ماں بننے کے بھی ارمان ہیں۔ اس کا پیشہ تمام فرائض یا خواہشات پر توجہ دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ خاص طور پر خانم کی سخت نگہداشت میں کس کی مجال کہ اپنی طبیعت سے کوئی چلے۔ اس کے باوجود امراو جان زندگی کے ان مختلف خانوں کے فرائض سے نہ صرف واقف ہے بلکہ ان کی ادا ئیگی کے لیے بھی کوشاں رہتی ہے۔ زندگی کے آخری دور میں جب رقص و موسیقی کی محفلوں میں وہ ایک غیر ضروری شے بن چکی ہے، اس وقت بھی معاشی سطح پر آزادرہنے کے لیے بھی کاروبار کی طرف وہ کامیابی سے بڑھ جاتی ہے۔امراو جان کردار کی حیثیت سے اپنی اس فرض شناسی اور توازن کے سب عظمت حاصل کر سکی ہے۔ اس کے عاشقوں کی فہرست میں جو تنوع موجود ہے اور نواب صاحب سے لے کر فیضو تک اس پر جان چھٹر کنے کے لیے تیار ہیں، یہ اس لیے ممکن ہو سکا کہ امراو جان بھی ان کے تئیں ایسی ہی محبت اور جاں نثار ی کا جذ بہ رکھتی ہے۔
بعض ناقدین نے مرزا رسوا پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ امراو جان ادا کی ایک شخصیت میں جتنی خوبیاں اور زندگی کی اوا ئیں محفوظ کی گئی ہیں، شاید ان کا اصلی چہرہ ڈھونڈ انہیں جاسکتا۔ لکھنو کی طوائفوں کی تاریخیں بھی موجود ہیں لیکن ان میں ایک بھی ایسی نہیں جس میں حسن علم، تہذیب وتربیت اور فراست کی تمام تر جلوہ سامانیاں موجود ہوں۔ شاید یہیں اس بحث کا نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ناول اور حقیقی زندگی کے کرداروں میں یکسانیت ضروری نہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ کردار مختلف کرداروں کا مجموعہ ہو۔ اس لیے بعض ناقدین نے پایا کہ امراو جان کی شخصیت میں ماورائیت بھی ہے۔ یعنی زندگی کے کسی موڑ پر وہ حقیقی انسانی چہرے سے آگے نکل جاتی ہے لیکن مرز ارسوانے ڈرامائیت کی اتنی سطحیں اس ناول میں ڈال رکھی ہیں کہ پڑھنے والا آسانی سے ہ موڑ پر حقیقی اور ماورائی زندگی کا موازنہ نہیں کر سکتا۔ اسی لیے اردو ناول کے دل پسند کر داروں اور جادو نگارنسوانی کرداروں کی جب بھی بات اٹھتی ہے تو ہماری نگاہ انتخاب امراو جان پرآ کر ٹھہر جاتی ہے۔
مرز ارسوانے یہ ناول امراو جان کے لیے ہی لکھا لیکن اس کی زندگی کومز ید روشن کر نے کے لیے چند اور کردار بھی ہیں جنھیں قصے میں شامل کیا گیا ہے۔ امراو کے ساتھ ہی خورشید اور بسم اللہ تازہ واردان بساط دل میں نئی عمروں میں انھیں کوٹھووں پر اپنی خدمات ادا کرنی ہیں۔ دونوں کے کردار دو طبقے سے آتے ہیں، اس لیے ان کی شخصیت بھی الگ الگ دکھائی دیتی ہے۔ خورشید ایسے طبقے کی چشم و چراغ ہے جہاں شرافت اور نجابت ہی شناخت نامہ تھالیکن کو ٹھے پر آ کر اسے خانم کے کاروبار کا حصہ بننا پڑا۔امراو جان اس پر بجا تبصرہ کرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ کسی مردآ دمی کی جورو ہوتی تو خوب... عمر بھرمرد پاؤں دھو دھو کر پیتا‘‘ اس پیشے میں رہنے کے باوجود خورشید بھی اس ماحول میں مدغم نہیں ہوتی بلکہ ہرلمحہ بے اطمینانی اور تنقید کی چنگاریاں موجود رہتی ہیں۔ اس ناول میں اکثر و بیشتر کردار یا تو حالات کے مطابق چلتے ہیں یا تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک یہی خورشید ہے جس میں حالات کو ہر حال میں قبول کرنے سے گریز کی ایک آگ موجود ہے۔ اس لیے اپنے اختصار کے باوجود یہ کردار اس ناول میں الگ سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔
بسم اللہ خانم کی بیٹی ہے
بسم اللہ خانم کی بیٹی ہے۔ اس کی تمام پرورش و پرداخت طوائفوں کی مانوس فضا میں ہوئی ہے پیشے ورا نہ طور پر وہ کسی سے بھی آگے نکل جانا چاہتی ہے۔ حالاں کہ زندگی کے کسی نازک موڑ پر وہ بھی کسی کو اپنا دل دے بیٹھتی ہے لیکن اس کی ماں کی ایسی تربیت ہے کہ وہ پیشے کی کریہہ اور غیر اخلاقی زندگی کا ترجمان آخر کار بن کر رہتی ہے۔ رسوانے امراو جان میں بغاوت کی آگ نہیں رکھی تھی اور اسے خورشید کے لیے بچالیا تھا۔ اسی طرح امر او حالاں کہ ایک کامیاب طوائف ہے، بہترین شاعرہ ہے، اس کے باوجود زبان و بیان اور گفتگو کی بزم آرائیاں اصل میں بسم اللہ کا حصہ ہیں۔ اس کے بیان میں وہ پارہ ہے جس پر حدیث وفقہ کے ماہرین بھی پکی عمر کے باوجود نثار ہونے کے لیے مچلتے ہیں۔ بسم اللہ کی نظر ہمیشہ گاہک کی جیب پر رہتی ہے۔ شاید اس ناول میں بسم اللہ کی غیر موجودگی سے سب کچھ بے مز واور بے رنگ ہو جا تا۔
مراو جان ادا کی کہانی
امراو جان ادا کی پوری کہانی خانم کے کوٹھے پر بنی گئی ہے۔ خانم کاروباری سطح پر واقعتا مہارت رکھتی ہے۔ کم عمر بچیوں کو ہر اعتبار سے لیس کر کے شرفا کی بزم طرب کا حصہ بنانا اسے خوب آتا ہے محسوس ہوتا ہے کہ ایک مشینی شخصیت ہے اور اسے کچھ کچا مال مل گیا ہے جس سے اسے اپنے کام کی چیز میں بنا سنوار کر تبد یل کر دیتا ہے۔ خانم کی شخصیت میں سالمیت اور پختگی تو ہے لیکن اس کے جسم سے مرزا رسوا نے انسانی چہرہ چھین کر قصّے کے بہاو کو امراو جان کی طرف موڑا ہے ورنہ خانم کی شخصیت کا سہرا اپنے آپ میں کم نہیں تھا۔
لکھنو کی سرزمین پر انیسویں صدی کے آخری برسوں میں امراو جان ادا کی شکل میں ایک ایسی کتاب سامنے آئی، جس کی عظمت کا اعتراف چہار طرف ہوا۔ مرزا رسوا کی نثر نگاری، پلاٹ کا ترقی یافتہ شعور، کر دار کا فطری اور مکمل ارتقا اور سب سے بڑھ کر افسانوی فن کا سحر کارانہ استعمال ایسے اجزا ہیں جن کی بدولت امراو جان ادا کو لافانی مقام عطا ہوا۔ اردو ناول نے گذشتہ صدی میں اپنے رنگ اور روپ میں ہزار تبدیلیاں کیں۔ زمانے کا مزاج بھی یک گونہ بدل گیا۔ انیسویں صدی کے آخر سے آج اکیسویں صدی کے آغاز کا مقابلہ کر یں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعتا کوئی نئی دنیا ہے۔ گذشتہ سے بالکل الگ اور شاید بےتعلق۔اقدار، سماج اور ادب دونوں کی دنیا بدل گئی۔ جاگیردارانہ نظام پورا کا پورا ز میں دوز ہو گیا۔ سامراج بھی برطانیہ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ جمہوریت معاشرے کا نیا طور بن کر ابھری۔ ان سب کے باوجود ناول امراو جان ادا جیسی تخلیق کو اردو کے مشہور ناول بنا دیا گیا۔ امراو جان ادا ایک بے مثال تخلیقی شہ پارہ اس لیے بھی مانا گیا کیوں کہ بدلتے ہوئے وقت میں اس نے اپنی معنویت قائم رکھی۔ آج بھی اس کتاب پر وقت کے گردوغبار نہیں تھے۔
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے