Ticker

6/recent/ticker-posts

نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی : مرزا فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری

نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی : مرزا فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری


آج کی تحریر میں ہم نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی کا مطالعہ کریں گے اس خاکہ کو مرزا فرحت اللہ بیگ نے لکھا ہے۔ اس مطالعہ کے دوران ہم مرزا فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری کا جائزہ بھی پیش کریں گے۔

نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی : مرزا فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری


نذیر احمد کی کہانی : مرزا فرحت اللہ بیگ

نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی مرزا فرحت اللہ بیگ نے1927ء میں تحریر کی ہے۔ مرزا فرحت اُس وقت تک عام طور پر” الم نشرح “ کے فرضی نام سے لکھا کرتے تھے۔ یہ پہلا ایسا خاکہ ہے جسے مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے اصلی اور معروف نام سے لکھا ہے۔ فرحت نے یہ خاکہ مولوی عبدالحق کے بے حد اصرار پر لکھا تھا اور پہلی مرتبہ انجمن پنجاب ترقی اردو کے رسالے” اردو“ میں اسے شائع کیا گیا۔ فرحت کی یہ تحریر نذیر احمد کی کہانی اردو زبان کا پہلا کامیاب اور مکمل خاکہ ہے۔ یہ خاکہ ایک ایسی شخصیت کا مرقع ہے جو اپنی شخصیت اور عالمانہ وقار کے لئے اس زمانے میں شہرت رکھتی تھی۔ حالانکہ ڈپٹی نذیر احمد کا طنز و مزاح سے کوئی گہرا تعلق تو نہیں تھا۔ بھر بھی فرحت اللہ بیگ کا مرقع پڑھنے کے بعد ڈپٹی نذیر احمد کی مزاح سے بھر پور شخصیت ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ بعض نقادوں نے کہا ہے کہ اگر فرحت اور کچھ بھی نہ لکھتے تو صرف یہ مضمون ہی انہیں زندہ رکھنے کے لئے کافی تھا۔ آئیے ان خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں جن کی بدولت اس خاکے کو شہرت عام نصیب ہوا۔

مرزا فرحت اللہ بیگ کی مزاح نگاری


فرحت کے تمام مضامین میں مزاح کا عنصر اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے لیکن ”نذیر احمد کی کہانی“ میں مزاح کا عنصر انتہائے کمال پر پہونچا ہوا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مرزا فرحت قطری طور پر مزاح طبیعت کے مالک تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے مضامین میں قریب قریب صرف اُن لوگوں کو موضوع بنایا جو خود اعلیٰ درجے کے مزاح کے علمبردار تھے۔ مولوی نذیر احمد بھی اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے اور شائد مزاح کے اس قدرِ مشترک نے فرحت کو اپنے استاد مولوی نذیر احمد پر اپنی شگفتہ قلم اُٹھانے کی توفیق بخشی۔ اس کہانی میں مولوی صاحب پر لکھا ہوا ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ خوش مذاقی کا آئینہ دار ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ دونوں استاد اور شاگرد خوش مذاق تھے۔ دراصل نذیر احمد سے فرحت اللہ بیگ کی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ اُن کی ہم مذاقی تھی۔ چنانچہ کہانی کے آغاز میں اس طبعی یگانگت کا خوشگوار تذکرہ کرتے ہیں۔

” میں متانت کو بالائے طاق رکھ دیتا ہوں کیونکہ مولوی صاحب جیسے خوش مذاق آدمی کے حالات لکھنے میں متانت کو دخل دینا اُن کا منہ چڑھانا ہی نہیں اُن کی توہین کرنا ہے۔“

اس خاکے کا ایک ایک لفظ اپنے اندر مزاح کا ایک سمندر لئے ہوئے ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے نہ صرف نذیر احمد کا حلیہ، چال ڈھال بلکہ اُن کی ہر حرکت اور ادا کو شگفتگی سے بیان کیا ہے کہ سماں بندھ جاتا ہے۔ لیکن فرحت کی مزاح نگاری میں چھیڑنے اور شرارت کرنے کا انداز ہر گز نہیں ان کی درد مندی پر وضعداری کا رویہ چھایا رہتا ہے۔ فرحت ہنساتے ہیں لیکن بے شاگردی کی حد نہیں بھولتے ۔ ایک اچھے مزاح نگار کی طرح ان کے تبسم کے پیچھے درمندی کے آنسو چھپے ہوتے ہیں۔

فرحت اللہ بیگ کی مرقع نگاری

مرقع نگاری سے مراد قلمی تصویریں بنانا یا کسی شخص کا حلیہ تحریر کرنا ہے۔ فرحت اللہ بیگ اردو کے صف اول کے مرقع نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد کے بعد ان کا نام اس صنف میں لیا جاتا ہے۔ فرحت اللہ بیگ شخصیت نگاری و مرقع کشی کا وہ فطری ذوق رکھتے ہیں کہ ان کی خیالی تصویریں بھی ان کے قلم کی معجز بیانی کے باعث زندہ اور جیتی جاگتی حقیقت کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ فرحت اللہ بیگ ظرافت اور قصہ نگاری کو آپس میں ملا کر شخصیت نگاری کا خمیر اُٹھاتے ہیں جس سے ان کے شخصی مرقعوں میں ادبی حسن اور فنی عظمت آ جاتی ہے۔ فرحت اللہ بیگ کی تمام تحریروں مثلاً دہلی کا یادگار مشاعرہ”پھول والوں کی سیر“ وغیر ہ میں مرقع نگاری کے بہترین نمونے ہمیں ملتے ہیں لیکن ”نذیر احمد کی کہانی“ بلحاظ مرقع نگاری ایک الگ ہی چیز ہے۔ نذیر احمد کی کہانی مرقع کی تعریف پر پوری اُترتی ہے۔ کیونکہ اس میں ایک شخص کی شخصیت کے جملہ اوصاف کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ جو کہ شخصیت نگاری اور مرقع نگاری کی مکمل مثال ہے۔

توازن

نذیر احمد، مرزا فرحت اللہ بیگ کے محسن بھی تھے اور استاد بھی۔ لیکن مرزا نے انہیں ہیرو یا فرشتہ بنا کر پیش نہیں کیا اور نہ ہی ہماری ملاقات جبہ پہننے والے ایک ماہر خطیب اور عالم بے بدل سے کرائی ہے۔ بلکہ ہمیں ایک ایسے خوش مذاق انسان سے ملوایا ہے جو اپنے خوش ذوق شاگردوں کی ظریفانہ ادائوں کی داد دینے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے کسی طرح کی لگی لپٹی کے بغیر نہایت بے تکلفی سے اپنے استاد کی شخصیت کو متعارف کروایا ہے۔ نذیر احمد کی کہانی کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔

” اب جو کچھ کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا ہے وہ لکھوں گا۔ اور بے دھڑک لکھوں گا۔ خواہ کوئی برا مانے یا بھلا۔ جہاں مولوی صاحب مرحوم کی خوبیاں دکھائوں گا وہاں اُن کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کر دوں گا تاکہ اس مرحوم کی اصلی اور جیتی جاگتی تصویر کھینچ جائے اور یہ چند صفحات ایسی سوانح عمری نہ بن جائیں جو کسی کو خوش کرنے یا جلانے کے لئے لکھی گئی ہو۔“

یہ خاکہ ان کی چشم دید اور پہلے پہل کے علم پر مبنی معلومات کا بے۔ فرحت اللہ بیگ نے نذیر احمد کی شخصی کمزوریوں کو بھی بلا جھجک بیان کیا ہے۔ انہوں نے نذیر احمد کو نہ فرشتہ بنا کر دکھایا ہے اور نہ شیطان اور نہ ملائے مسجدی۔

نذیر احمد کی کہانی خصوصیات

یہ خاکہ اردو خاکہ نویسی کے اس مروجہ ڈھب سے مختلف ہے جس میں خاکے یک طرفہ ہوتے ہیں اور زندگی کا بس ایک ہی رخ سامنے آ پاتا ہے۔ یا پھر صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ خاکہ لکھنے والا کوشش کرکے ایسے پہلو سامنے لانا چاہتا ہے جن سے ایک خاص طرح کی شخصیت ابھر کر سامنے آئے گی۔ فرحت اللہ بیگ کے اس خاکے کی غیر معمولی خوبی یہ ہے کہ یہ تصویر کے دونوں رخ پیش کرتا ہے۔ مولوی صاحب کی تمام تر خوبیوں اور اوصاف کے ساتھ ان کی سخت اور کڑی طبیعت اور بخل اور ان کی سود خوری کے ذکر سے گریز نہیں کیا۔ چنانچہ کنجوسی کے متعلق یوں لکھتے ہیں۔

” وقت بے وقت کے لئے دو انگریزی جوڑے لگا رکھے تھے جن پر میری یاد میں کبھی پالش ہونے کی نوبت نہ آئی تھی۔ یہاں تک کے دونوں سوکھ کر کھڑنک ہوگئے تھے۔“

نذیر احمد کی کہانی میں طنز کے پہلو

فرحت نے بڑی خوبصورتی سے نذیر احمد کی سود خوری پر طنز کیا ہے۔ کہ مولوی صاحب بلا دریغ مسلمانوں کو تجارت کے لئے روپیہ قرض دیتے مگر ان سے سود در سود وصول کرتے۔ مفسر قرآن اور عالم دین نذیر احمد سود خوری میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ فرحت نے ایک جگہ لکھا ہے۔

” میں اپنے استاد کے حالا ت لکھ رہا ہوں اگر سچ ہیں تو میں اپنا فرض پورا کرتا ہوں اگر جھوٹ ہیں تو وہ خود میدان ِ حشر سود در سود لگا کر تاوان وصول کریں گے۔“

فرحت اللہ بیگ کی کردار نگاری

نذیر احمد کے خاکے میں مرزا فرحت اللہ بیگ نے کردار نگاری کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ فرحت اللہ بیگ میں بہترین کردار نگاری کا جوہر موجود ہے۔ اس لئے انہوں نے نذیر احمد کی دلچسپ اور انوکھی اور حقیقت پر مبنی تصویر بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ بلا شبہ نذیر احمد والے مضمون میں فرحت نے عقیدت اور طنز کو اردو ادب میں سمو کر کردار نگاری کے نئے ڈھنگ کی بنیاد ڈالی ہے۔ بعض نقادوں نے اسے سوانحی خاکہ قرار دیا ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے نذیر احمد کی زندگی کی ساری تفصیلات جمع نہیں کیں اور نہ جملہ مشاہدات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا ضروری سمجھا۔ بلکہ اپنے انتخابی ذہنی کو کام میں لا کر محض چند مخصوص احوال و واقعات اور مشاہدات و تاثرات کے بیان پر اکتفاء کیا ہے۔ جن سے نذیر احمد کی دلکش اور فطری تصویر اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

مرزا فرحت اللہ بیگ کی جزئیات نگاری

مولوی نذیر احمد کے حلیے، لباس، خوش خوراکی، ان کے مکان، حقے، کمروں کا نقشہ انداز نشست و برخاست، شاگردوں کی آمد، درس و تدریس، باہر جانے کے لئے تیاری اور کتنے ہی دوسرے پہلوئوں کی جزئیات نگاری کا بیان مرزا فرحت اللہ بیگ کے عمیق مشاہدے کا ثبوت ہے۔ فرحت کی تیز نگاہی اور حسن خیال نے ایسے مرقعے تشکیل دیے ہیں جو تخیل، حسن و جمال اور رنگینی کے حامل ہیں۔ مثلا ً مولوی صاحب کے گھریلو لباس کا نقشہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

” اب ہمارے مولوی صاحب کو دیکھیے۔ میں کیا تصویر دکھانا چاہتا تھا؟ مولوی صاحب کا لباس مگر خدا کے فضل سے اُن کے جسم پر کوئی لباس ہی نہیں ہے۔ جس کا تذکرہ کیاجائے۔ نہ کرتا ہے نہ ٹوپی نہ پاجامہ ایک چھوٹی سی تہہ بند برائے نام کمر سے بندھی ہوئی ہے۔ بندھی ہوئی نہیں محض لپٹی ہوئی ہے۔ لیکن گرہ کے جنجال سے بے نیاز ہے۔“

نذیر احمد کو گھر میں حقہ پینے کا شوق تھا۔ جب تک گھر میں رہتے حقہ گرم رہتا۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے نذیر احمد کی حقہ پینے کی اس طرح تصویر کشی کی ہے۔

” مولوی صاحب کو حقہ کا بہت شوق تھا۔ مگر تمباکو کو ایسا کڑوا پیتے تھے کہ اس کے دھوئیں کی کڑواہٹ بیٹھنے والوں کے حلق میں پھندا ڈال دیتی تھی۔ فرشی قیمتی تھی مگر چلم پیسے کی دو والی اور نیچہ تو خدا کی پناہ۔“

مرزا فرحت اللہ بیگ حلیہ نگاری
نذیر احمد کی کہانی میں مرزا فرحت اللہ بیگ نے نذیر احمد کا حلیہ اتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ قاری ایسا محسوس کرتا ہے کہ جیسے زندہ اور متحرک مولوی نذیر احمد اُس کے سامنے اُٹھتا بیٹھتا کھاتا پیتا ہے۔ نذیر احمد کی کہانی میں مرزا فرحت نے اپنے شوخ لفظوں کے ذریعے نذیر احمد کی ایسی خوبصورت اور متحرک تصویر کشی کی کہ قاری نذیر احمد کو اپنے سامنے بیٹھا ہوا محسوس کرتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ نذیر احمد کی داڑھی کے متعلق اس طرح لکھتے ہیں:

” داڑھی بہت چھدری تھی ایک ایک بال با آسانی گنا جا سکتا تھا۔“

ایک جگہ اور جہاں نذیر احمد چلتے پھرتے، ہنستے بولتے اور اُٹھتے بیٹھتے دکھائی دیتے ہیں۔

”رنگ سانولا مگر روکھا، قد خاصہ اونچا تھا مگر چوڑائی نے لمبائی کو دبا دیا تھا۔ کمر کا پھیر ضرورت سے زیادہ تھا۔ توند اس قدر بڑھ گئی تھی کہ گھر میں آزار بند باندھنا بے ضرورت ہی نہیں تکلیف دہ سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔۔ سر بہت بڑا تھا مگر بڑی حد تک اُس کی صفائی کا انتظام قدرت نے اپنے اختیار میں رکھا تھا۔

مرزا فرحت کے پیش کردہ حلیے کو پڑھ ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ لکھنے والا کس قدر ذہانت کا مالک تھا۔ اُس کا مشاہدہ کتنا عمیق تھا اور موضوع کی زندگی کے معمولی معمولی جزئیات پڑھنے میں اس کی آنکھیں کس قدر تیز تھیں۔

مرزا فرحت اللہ بیگ کے اسلوب کی انفرادیت

نقادوں کی یہ بات درست ہے کہ فرحت افراد کی کمزوریوں اور خامیوں کو ہمدردی اور محبت کے ساتھ اسلوب کی ظرافت میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں۔ خاکہ نویسی میں فرحت کی انفرادیت و کامیابی میں دوسرے عناصر کے ساتھ ان کے اسلوب یا مخصوص اسٹائل کو بھی دخل ہے۔ یہ اسلوب ان کی ذہانت، خوش مذاقی، ظرافت ِ طبع اور شگفتہ بیانی سے مرکب ہے۔ اگر کہا جائے کہ وہ اردو کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں خوش مذاقی کے بانی تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ

” وہ الفاظ اور جملوں کو ایسی شگفتہ کیفیت میں سمو کر پیش کرتے ہیں کہ دل و دماغ انبساط میں ڈوب جاتے ہیں اور انسان خود کو بشاش اور تازہ دم محسوس کرنے لگتا ہے۔“

با محاورہ خوبصورت اور دل آویز زبا ن ہی ان کا اصل فن ہے۔ بالعموم وہ مختصر اور نپے تلے جملے لکھتے ہیں۔ برجستہ مکالموں میں انہیں ملکہ خدادا د حاصل ہے۔

فرحت اول تو نذیر احمد کے شاگرد تھے۔ دوسرے وہ دہلی کے مخصوص ماحول میں پلے بڑھے۔ اور ایک اعتبار سے ”دلی کے روڑے “تھے۔ چنانچہ ان کی زبان پر نذیر احمد کا اثر بھی موجود ہے۔ خصوصاً محاورات کی ”ٹھونس ٹھانس “ کے ضمن میں، پھر ان کے ہاں دہلی کے بعض خاص طبقوں کا لب و لہجہ بھی ملتا ہے۔

فرحت اللہ بیگ کا اسلوب

فرحت کا اسلوب خوش طبعی، متانت و سنجیدگی کے ساتھ ظرافت کی آمیزش، اردو فارسی کے محاورات، ضرب الامثال کے ساتھ اردو ہندی کے مانوس محاوروں اور کہاوتوں کے برمحل استعمال اور دہلی کی ٹکسالی زبان سے تشکیل پاتا ہے۔ مولوی عنایت اللہ نے بجا کہا ہے کہ ان کے کسی ایک فقرے کی نسبت بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ پھیکا، بے لطف اور ڈل ہے۔ انہوں نے توازن سے کام لیتے ہوئے نشاطیہ پہلوئوں کے ساتھ زندگی کے حزینہ پہلو بھی بیان کئے ہیں۔ ان کے ہاں مسرتوں کے ساتھ غموں کی جھلک بھی ملتی ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ مسرتوں کے مرید رہے ہیں۔

نذیر احمد کی کہانی میں فرحت کی اپنی شخصیت
”نذیر احمد کی کہانی“ میں مصنف ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ دراصل اعلی درجے کی شخصیت نگاری کے لئے یہ بات بھی ضروری ہوتی ہے۔ کہ لکھنے والا شخصیت نگاری اپنی ذات کے حوالے سے کرتا ہے۔ فرحت کہانی کے ساتھ اپنی ذات کو بھی سموتے چلے جاتے ہیں لیکن اسطرح نہیں کہ شبلی کی طرح موضوع پر حاوی ہو جائیں اور اصل شخصیت کو کہانی کے پس منظر میں موجود رکھے تو کہانی کی دلچسپی میں اضافہ ہوتاہے اور خاص طور پر ایک ایسی کہانی جیسی فرحت اللہ بیگ نے لکھی ہے۔ اور جس انداز میں لکھی ہے۔ اس کے ساتھ مصنف کی ذات کی وابستگی ایک ادبی ضرورت بن جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ”نذیر احمد کی کہانی“ میں فرحت نے دو اسلوب پیدا کئے ہیں۔ ایک تو ان کا اپنا ہے اور دوسرے یہ کہ کہانی میں جن چیزوں کو نذیر احمد کی زبان سے کہلواتے ہیں۔ وہاں اسلوب بدل کر فرحت کے بجائے نذیر احمد کا ہو جاتا ہے۔ اس تفاوت کو برقرار رکھنا بھی فرحت کا بڑا کارنامہ ہے۔ جو ان کے آشنائے فن ہونے کا ثبوت ہے۔

نذیر احمد کی کہانی کا مجموعی جائزہ

نذیر احمد کی کہانی گلدستہ ادب ہے جس میں فرحت نے فنکاری اور حسن طبیعت سے خوب کام لیا ہے۔ اور اس میں رنگ رنگ کے پھول سجائے ہیں۔ سوانح نگاری، شخصیت نگاری، تہذیب کی تصویر کشی سبھی کچھ اس میں شامل ہے۔ اور فرحت کے حسین اور شوخ اسلوب تحریر نے اسے نہایت موثر اور جاندار بنا دیا ہے۔ اردو ادب میں یہ ادبی کوشش غیر فانی ہے۔مولوی وحید الدین سلیم فرحت کو ان الفاظ میں تحسین پیش کرتے ہیں۔

” مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا۔ مرنے کے بعد اُس کا نام زندہ کردیا۔ افسوس ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اس رنگ میں ہمارا نام بھی لکھتا۔“

جبکہ محمد طفیل لکھتے ہیں:

” جو مضمون فرحت اللہ بیگ نے لکھا ہے وہ اتنا خطرناک ہے کہ اس سے زیادہ کسی کے خلاف نہیں لکھا جا سکتا۔ مگر اس مضمون کا کمال یہ ہے کہ لکھنے والے نے حد درجہ ذہانت کا ثبوت دیا اور قلم کو فن کی عظمتوں سے ہم کنار کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون مزے لے لے کر پڑھا جا سکتا ہے اور ڈپٹی نذیر احمد کی شخصیت دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔ اس دلچسپ پہلو کے علاوہ جو بات بھی ذہن میں ابھرتی ہے وہ دبی دبی سی ہے۔“


ڈاکٹر سلمان اطہر جاوید نے اپنی کتاب، ” اسلوب اور انتقاد“ میں اس طرح لکھتے ہیں کہ

” مرزا فرحت نے نذیر احمد کا حلیہ، چال ڈھال، کردار و گفتار، کھانا پینا، بات چیت، نشست و برخاست، علم سے اُن کی وابستگی ان کے کاروبار غرض اُن کی ہر ادا، ہر حرکت اور ہر معاملہ کو اتنی شگفتگی کے ساتھ ضبط تحریر میں لایا ہے کہ ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ یہاں مزاح نذیر احمد کے حلیہ سے نہیں برستا بلکہ مرزا فرحت کے اسلوب سے مزاح جھلکتا ہے۔ جس کے باعث ڈپٹی صاحب کا حلیہ بھی مزاح پارہ بن جاتا ہے۔“
اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے