Ticker

6/recent/ticker-posts

لمحے کا خلاصہ اور سوالات و جوابات : اردو پریم

افسانہ لمحے کا خلاصہ اور سوالات و جوابات

آج کی تحریر میں ہم بلونت سنگھ کا افسانہ لمحے کا خلاصہ پیش کرنے جا رہے ہیں۔ یہ افسانہ این سی ای آر ٹی کی بارہویں جماعت NCERT Class 12 Urdu میں شامل ہے اس لیے اس کا مطالعہ کرنا ہم سب کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس افسانے سے این سی ای ار ٹی کے امتحان میں اکثر سوالات پوچھے جاتے ہیں اس لیے اس تحریر میں ہم آس افسانے سے متعلق سوالات و جوابات بھی پیش کریں گے۔

افسانہ لمحے کا کے مصنف کا نام بلونت سنگھ ہے۔ ان کی پیدائش 1920 سے 1921 کے آس پاس ضلع گوجرانولہ میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی اور میٹرک دہرادون کے کیمبرج سکول سے کیا۔ انہوں نے کرسچین کالج الہ آباد سے انٹر اور الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کیا اس کے بعد روزگار کی تلاش میں کراچی اور لاہور بھی گئے۔

دہلی میں انہوں نے رسالہ آج کل کے نائب مدیر کے طور پر کام کیا۔ اور الہ آباد سے اردو میں ” فسانہ“ اور ہندی میں " اردو ساہتیہ “ کے نام سے رسائل جاری کیے۔ انہوں نے کئی طویل اور مختصر ناول بھی لکھے۔ ”رات چور اور چاند“ اور ” چک پیراں کا جسا“ بلونت سنگھ کے ایسے ناول ہیں جو پہلے اردو زبان میں شائع ہوئے۔ اور ہندی کے ناگری رسم الخط میں شائع ہونے والے افسانوی مجموعوں اور ناولوں کی تعداد لگ بھگ تیس ہے۔

بلونت سنگھ کا پہلا افسانہ”سزا“ 1937 میں رسالہ ساقی میں شائع ہوا۔ ”جگا“ ،” تارو پود“،”ہندوستان ہمارا“، ” پہلا پتھر“،”بلونت سنگھ کے افسانے“ اور "سنھرا دیس“ ان کے اہم افسانوی مجموعوں کے نام ہیں۔ ان کے افسانوں میں دیہاتی کرداروں اور گاؤں کی زندگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

افسانہ لمحے کا خلاصہ

افسانہ لمحے کی کہانی امکانات کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اماکانت اس افسانے کے مرکزی کردار کا نام ہے۔ جو کسی بھی طرح کے کام کاج اور گھر کی ذمے داریوں سے بالکل آزاد اور تنہا آدمی ہے۔ پیر کے دن اماکانت اپنے گھر سے دوستوں سے ملنے کے لیے نکلتا ہے۔ جب وہ بس اسٹینڈ پر پہنچتا ہے تو وہ کناٹ پیلس جانے کے لیے ایک کھڑی بس میں سوار ہوتا ہے۔ بس میں سوار ہوتے ہی وہ سب سے پہلا کام یہ کرتا ہے کہ بس میں پہلے سے موجود سواریوں کا جائزہ لیتا ہے۔

اس بس میں پہلے سے کچھ مسافر موجود ہوتے ہیں، جن میں کچھ مرد اور تین لڑکیاں اور دو عورتیں بھی ہوتی ہیں۔اماکانت پہلے لڑکیوں کا جائزہ لیتا ہے پھر عورتوں کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ ایک عورت کو وہ شکل سے آیا جب کہ دوسری کو دو بچوں کی ماں تصور کرتا ہے۔ دوسری عورت کے ساتھ اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی موجود ہوتی ہے۔بس میں کوئی بھی حسین چہرہ نہ پاکر پہلے پہل تو اماکانت مایوس ہو جاتا ہے اور دو بچوں کی ماں کو بھی بہن جیسی ماننے لگتا ہے۔ لیکن کچھ دیر کے بعد جب اس کی نظر دو بچوں کی ماں پر پڑتی ہے، تو وہ اس کا بے پناہ حسن دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور دل ہی دل میں اس عورت سے بات کرنے کے بہانے تلاش کرنے لگتا ہے۔ اچانک وہ اس عورت سے بات کرنے کا راستہ تلاش لیتا ہے۔ وہ عورت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس کے کندھے پر موجود بچے کو پیار کرنے لگتا ہے۔ اسے بچے کے کان کے پاس داد کی بیماری کے نشان دکھائی دیتے ہیں جس کے متعلق اس عورت سے بات کرتا ہے۔ اس کے بعد عورت بھی اماکانت سے بات کرنے لگتی ہے۔

عورت اماکانت سے اس کی شادی اور کاروبار کے مطلق دریافت کرتی ہے۔ عورت کے سوال کا جواب دینے کے بعد اماکانت اس کی بچی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ بھی باتیں کرنے لگتا ہے۔ وہ بچی سے نام پوچھتا ہے۔ بچی کے نام سن کر جب اماکانت کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت مسلمان ہے تب وہ اس سے اس بات کی تصدیق چاہتا ہے۔ پھر وہ یہ بھی معلوم کرتا ہے کہ کیا وہ فسادات کے دنوں میں دہلی میں موجود تھی یا نہیں۔ جواب میں عورت اس کو فسادات کے دنوں میں دہلی میں اپنی موجودگی اور ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتی ہے۔ اتنے میں دوسرا بس اسٹینڈ آجاتا ہے۔ جہاں عورت کو بس سے اترنا پڑتا ہے۔

اماکانت کی دلی خواہش ہے کہ وہ عورت کی مدد کرے لیکن عورت اپنے بچوں کو لے کر خود ہی بس سے اتر آتی ہے۔ جب کچھ دیر بعد اماکانت پلٹ کر اس عورت کی طرف دیکھتا ہے تو اس کی ٹانگ میں موجود لنگڑاہٹ کو دیکھنے کے بعد وہ حیران رہ جاتا ہے۔ وہ ایسا سوچتا ہے کہ اگر یہ نقص نہ ہوتا تو اس عورت کا حسن یقیناً آگ لگا دینے والا تھا۔

لیکن جب وہ اس کے اس نقص کی وجہ جانتا ہے کہ دراصل وہ نقص قدرتی نہیں ہے بلکہ فسادات کی ہی پیداوار ہے تو اماکانت ایک گہرے صدمے سے دوچار ہوجاتا ہے۔اور من ہی من میں اس عورت کے قدموں پر سر رکھ کر اپنی قوم کی طرف سے کئے جانے والے گناہوں کی معافی مانگنے لگتا ہے۔ اس طرح سے کہانی کا اختتام ایک دوسرے سے دور ہوتے ہوئے اور دونوں کرداروں کی ایک دوسرے کی قوم کو معاف کردینے والی شکر گزار نظروں سے دکھایا گیا ہے۔

افسانہ لمحے کا خلاصہ اور سوالات و جوابات

سوال نمبر (١)

اس افسانے کا عنوان لمحے کیوں رکھا گیا ہے؟

اس افسانے کا عنوان لمحے اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ افسانوی کرداروں کی زندگی پر کہیں نہ کہیں ان لمحوں کے اثرات موجود دکھائی دیتے ہیں جن کا سبب تقسیم کی صورت میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات تھے۔ ایک وہ لمحہ تھا جب یہ ظلم و ستم لوگوں پر بیت رہا تھا اور ایک یہ لمحہ ہے جب افسانے کے کردار ” اماکانت“ پر ان لمحات کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔

سوال نمبر(٢)

بس کے مسافروں کے بارے میں افسانہ نگار نے جو تفصیل پیش کی ہے اسے اپنے لفظوں میں بیان کیجئے۔

افسانہ نگار کے مطابق بس کے مسافروں کے بارے میں تفصیلات یوں ہے کہ سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے بس میں چند مسافر ہی موجود تھے۔ بس میں موجود مسافر ایک دوسرے سے دور دور بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔اماکانت نے بس میں سوار مسافروں کا جائزہ لیا۔ بس میں کل تین لڑکیاں اور دو عورتیں موجود تھیں۔ لڑکیاں گوری اور دو دو چوٹیاں کیے ہوئے تھیں۔ ان کی آنکھیں درمیانی اور باتیں میٹھی پھیکی تھیں۔ دو عورتوں میں سے ایک عورت دیکھنے میں آیا معلوم ہوتی تھی اور دوسری عورت دو بچوں کے ساتھ موجود تھی۔ بچوں کے ساتھ موجود عورت نہایت حسین تھی۔

سوال نمبر (٣)

اس افسانے کا مرکزی خیال کیا ہے؟

افسانہ لمحے کا مرکزی خیال انسانیت کا دکھ درد سمیٹے ہوئے ہے۔ کہانی کے مرکزی کردار میں موجود عورت جو دیکھنے میں نہایت حسین لیکن اس کی ٹانگ میں لنگڑا پن ہے جو قدرتی نہیں بلکہ تقسیم کی صورت میں ہونے والے فسادات کی پیداوار ہے۔ اس عورت کی کہانی میں موجود یہ کمی یا نقص افسانہ نگار کو گہرے صدمے میں مبتلا کرتی ہے اور یہ صدمہ محض اس عورت کا نہیں بلکہ ان فسادات میں انسانیت پر ہونے والے اسی طرح کے ان گنت مظالم کا دکھ بھی ہے۔ یہ ہی اس افسانے کا مرکزی خیال بھی ہے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے