خوجی ایک مطالعہ کا خلاصہ اور سوالات وجوابات
آج کی تحریر میں ہم احتشام حسین کا تنقیدی مضمون خوجی ایک مطالعہ پر بحث کرنے جا رہے ہیں۔ یہ مضمون این سی ای آر ٹی کی بارہویں جماعت NCERT Class 12 Urdu میں شامل ہے اس لیے اس کا مطالعہ کرنا ہم سب کے لیے بے حد ضروری ہے۔ خوجی ایک مطالعہ سے این سی ای ار ٹی کے امتحان میں اکثر سوالات پوچھے جاتے ہیں اس لیے اس تحریر میں ہم خوجی ایک مطالعہ کا خلاصہ اور سوالات و جوابات بھی پیش کریں گے۔
خوجی ایک مطالعہ ایک تنقیدی مضمون ہے۔ اس کے مضمون نگار کا نام احتشام حسین ہے۔ اس مضمون کو احتشام حسین کی کتاب اعتبار نظر سے لیا گیا ہے۔ مضمون نگار نے اس مضمون میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کے مشہور ناول فسانہ آزاد کے مزاحیہ کردار خوجی کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
احتشام حسین مختصر تعارف
احتشام حسین کی پیدائش 1912 میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں ماہل میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اعظم گڑھ اور الہ آباد ہی سے حاصل کی۔ انھوں نے 1936 میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور 1938 میں لکھنو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں استاد مقرر ہوئے۔ 1961 میں الہ آباد یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر کا عہدہ ملا ۔ 1972 میں الہ آباد میں انتقال ہوا۔
احتشام حسین نے ادبی دنیا میں 1932 کے قدم رکھا۔ شروع میں اردو میں افسانہ نگاری اور ڈراما نویسی اور ساتھ میں غزلیں اور نظمیں بھی لکھتے تھے۔ انھوں نے علم زبان سے متعلق جان بیمز کی کتاب کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔ یہ کتاب ”ہندوستانی لسانیات کا خاکہ”کے نام سے شائع کیا گیا۔ افسانوی مجموعہ "ویرانے” اور سفر نامہ”ساحل اور سمندر” کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ احتشام حسین کا اصل میدان تنقیدی مضامین ہے۔ وہ شروع سے ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اشتراکیت پر یقین رکھتے تھے۔ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے تنقیدی جائزے، روایت اور بغاوت، ادب اور سماج، تنقیدی اور عملی تنقید، ذوق ادب اور شعور، افکار و مسائل، اور اعتبارِ نظر شامل ہیں۔
خوجی ایک مطالعہ کا خلاصہ
خوجی رتن ناتھ سرشار کے ناول فسانہ آزاد کا ایک مزاحیہ کردار ہے۔ خوجی ایک مطالعہ میں احتشام حسین نے اس کردار کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ خوجی کا کردار لکھنو کی زوال پذیر تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ خوجی جیسے کردار شیکسپیئر، سروینیٹز کی تحریروں میں بھی موجود ہیں اور ہندوستانی تہذیب میں سرشار کے یہاں یہ کردار خوجی تو منشی سجاد کے یہاں حاجی بغلول کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔
خوجی کا کردار اپنی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے توجہ اور پسندیدگی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن خوجی کی احمقانہ حرکتوں میں بھی مصنف نے بہت سی معاشرتی صداقتوں کو ظاہر کیا ہے اپنی تیز زبانی اور پسند نا پسند کی وجہ سے یہ کردار بہت جلد قاری کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ اس کی پسندیدہ چیزیں افیون اور گنا ہیں جبکہ پانی، کمہار اور ازعفران سے اسے سخت نفرت ہے۔ خوجی کا کردار تو ہندوستانی خوبیوں کا مظہر ہے لیکن تہذیب وہ خالصتاً اسلامی اپناتا ہے۔
وہ سڑک کنارے کباب والے سے کباب خرید کر کھا لیتا ہے لیکن ہوٹل میں جاکر کھانے کو ناجائز خیال کرتا ہے اس لیے کہ وہاں شراب اور حلال و حرام کے معاملات ہوسکتے ہیں۔خوجی کے کردار کا یہ نقطہ نظر دراصل لکھنو کی مٹتی ہوئی تہذیب کی نمائندگی کر رہا ہے۔ ناول میں خوجی کے ساتھ ہی کہانی کا ایک اہم کردار آزاد بھی موجود ہے جو مصنف کے مطابق سرشار نے خوجی کے کردار کو ہی دو حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ فرق محض اتنا ہے کہ آزاد کے کردار میں بلندی فکر اور ربط موجود ہےجبکہ خوجی کا کردار بے سلیقگی کا شکار ہے۔
احتشام حسین کے مطابق اگر آزاد کو بگاڑ دیا جائے تو خوجی بن جائے گا اور خوجی کو سنوارا جائے تو وہ آزاد کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ خوجی کے کردار کی یہ خوبی ہے کہ وہ آزاد کا ایک بگڑا ہوا خاکہ ہونے کے باوجود قاری سے اپنی ہستی منوا لیتا ہے۔ خوجی کے کردار میں دنیا دار آدمی کا تدبر بھی موجود ہے اور احساس برتری کا تاثر بھی پایا جا تا ہے۔ خوجی کی وہ خصوصیت جو اسے زوال آمادہ تمدن کا خاص کردار بناتی ہے اس کا جذبہ وفاداری ہے۔ وہ نواب صاحب کے وفادار ہونے کا ثبوت ان کی مشکل میں ان کی مدد کرنے کی ٹھان کر دیتا ہے۔
ناول میں موجود ہر کردار نے خوجی کی تصویر اپنے مذاق کے مطابق کھینچی۔ جس سے خوجی مجسم شامت، پستہ قامت، کوتاہ گردن، تنگ پیشانی، خباثت اور شرارت کی نشانی دکھائی دیتا ہے۔ مختصرا خوجی ہندوستان میں ہو یا روس، ترکی اور پولینڈ میں وہ اپنی خصوصیات اپنے ساتھ لیے پھرتا ہےاور اپنی تہذیب کا علمبردار ہے۔
خوجی ایک مطالعہ سوالات وجوابات
سوال نمبر (١)
خوجی کا حلیہ بیان کیجئے۔
جواب: حلیے کے اعتبار سے خوجی ایک مجسم شامت، پستہ قامت، کوتاہ گردن، تنگ پیشانی، خباثت اور شرارت کی نشانی لیے ہوئے ہے۔
سوال نمبر (٢)
خوجی کو مغرور ثابت کرنے کےلیے کیا دلیلیں پیش کی گئی ہیں؟
جواب: خوجی کو مغرور ثابت کرنے کے لیے جو دلیلیں ہیں، ان میں خوجی کی اکڑ ہے۔ جس سے اسے کافی نقصان بھی پہنچا ہے۔ وہ اپنا نام کم سے کم مفتی خواجہ بدیع صاحب علیہ الرحمتہ والغفران بتاتا ہے۔ ہار جانے کے بعد ہار نہیں مانتا اور مار کھانے کے بعد اپنی قرولی کو ضرور یاد کرتا ہے۔ یہ تمام خصوصیات خوجی کو ایک مغرور انسان کے روپ میں دکھاتی ہیں۔
سوال نمبر (٣)
خوجی کے جذبہ وفاداری کے بارے میں مصنف کی کیا رائے ہے؟
جواب: خوجی کا جذبہ وفاداری ہی اس کے کردار کی وہ خصوصیت ہے جو اسے زوال آمادہ جاگیردارانہ تمدن کا خاص کردار بناتی ہے۔ خوجی نواب صاحب کا نمک خوار ہونے کی حیثیت سے ان کی محبت کا دم بھرتا ہے۔ ان کے لیے اپنی جان کو ہر طرح کی مصیبت میں ڈالنے کے لیے آمادہ دکھائی دیتا ہےاور صرف نواب صاحب ہی نہیں جب آزاد کے ساتھ اس کی وفاداری اور محبت کی آزمائش کا وقت آتا ہے تو وہ خود کو آزاد کا بھی خیر خواہ ثابت کرتا ہے۔
سوال نمبر (٤)
خوجی اور آزاد کے کرداروں میں کیا مطابقت ہے؟
جواب: خوجی اور آزاد کا کردار ایک دوسرے سے باہم متصل نظر آتے ہیں۔ دونوں مل کر زندگی کی تصویر بناتے ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرا ادھورا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سرشار نے ایک ہی کردار کے دو ٹکڑے کردیے ہیں۔ آزاد اور خوجی کے کردار میں یہ مطابقت ہے کہ دونوں عاشق مزاج ہیں اور دونوں کے عشق میں ایک عجیب طرح کی ناہمواری ہے۔ ظرافت اور بذلہ سنجی دونوں میں ہے لیکن سطح کا فرق ہے۔ اس طرح یہ نظر آنے لگتا ہے کہ خوجی اور آزاد دونوں مل کر ایک مکمل تصویر بناتے ہیں۔ علیحدہ علیحدہ ان میں کوئی مکمل نہیں ہے خوجی کی سیرت آزاد کی محبت میں ہی نمایا ں ہوسکتی ہے۔
اور پڑھیں 👇
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے