Ticker

6/recent/ticker-posts

نعت شریف اردو شاعری | لکھی ہوئی نعت شریف Naat Sharif In Urdu

نعت شریف اردو شاعری | لکھی ہوئی نعت شریف Naat Sharif In Urdu


نعت شریف اردو شاعری

نعت

نگاہِ خواب مسلسل ہے بے قرار حضور
خدا کرے کہ ہو اب ختم انتظار حضور

جو سنگ بار ہیں ان پر بھی یہ دعا کے پھول
ہو کیوں نہ چشمِ جبَل آج اشک بار حضور

طرح طرح کے مظالم کی زد میں ہے دنیا
الگ ہی زعم میں ہیں اہلِ اقتدار حضور

جنھیں سمجھتے ہیں سب دین کے علم بردار
وہ ٹولیاں ہی ہیں اب وجہِ انتشار حضور

نصیب جس کا منوّر ہے آپ کے دم سے
چمک رہا ہے نگاہوں میں وہ دیار حضور

فدا ہے قلب مرا اسمِ ذاتِ اقدس پر
خدا کرے کہ کروں جان بھی نثار حضور

ہے نعت کہنے کی کوشش میں منہمک راغبؔ
خیال و فکر کی وادی ہے مشک بار حضور

افتخار راغبؔ
دوحہ قطر

نعت شریف اردو میں | Naat Sharif In Urdu

ادب! سرورِؐ مُرسَلاں آ رہے ہیں
رسالت کے رُوحِ رواں آ رہے ہیں
بصد عظمت و عِزّ و شاں آ رہے ہیں
جلَو میں لیئے قُدسیاں آ رہے ہیں
شہنشاہِؐ کون و مکاں آ رہے ہیں

یہی ذکر ہے آج ایک ایک گھر میں
ستاروں میں، غنچوں میں، گُل میں، گُہر میں
یہی دھُوم ہے ہر طرف بحر و بَر میں
مِٹانے کو ہر شر لباسِ بشر میں
شہنشاہِؐ کون و مکاں آ رہے ہیں

بُجھے کفر و الحاد کے سب شرارے
لرزتا ہے ابلیس دہشت کے مارے
سحر دم یہ کرتی ہیں کِرنیں اشارے
خدا کے دُلارے، خدائی کے پیارے
شہنشاہِؐ کون و مکاں آ رہے ہیں

بحُسنِ نبوّت بشانِ رسالت
سراپا تجلّی مجسَّم عنایت
سِحابِ کرم، سلسبیلِ شفاعت
بہ صد رفعت و رحمت و رُشد و رافت
شہنشاہِؐ کون و مکاں آ رہے ہیں

مناظر تجلّی کے ہیں کچھ عجب سے
فضا جگمگا کر یہ کہتی ہے سب سے
منوّر زمیں ہو گئی ماہِؐ عرب سے
ملائک ہیں صف بستہ ہر سُو ادب سے
شہنشاہِؐ کون و مکاں آ رہے ہیں

زہے خوش نصیبی، زہے کامگاری
چمکنے کو ہے آج قسمت ہماری
نظر منتظر، دل فدا، جان واری
وہ آئی، وہ آئی، وہ آئی سواری
شہنشاہِؐ کون و مکاں آ رہے ہیں

یہ صبحِ مسرّت ہے خوشیاں مناؤ
درُود و سلام اپنے ہونٹوں پہ لاؤ
محمّدؐ کے جلووں پہ قربان جاؤ
ادب سے نصؔیرؒ اپنی آنکھیں جُھکاؤ
شہنشاہِؐ کون و مکاں آ رہے ہیں

فرمُودۂ الشیخ پیرسیّدنصیرالدّین نصیرؔ جیلانی،
رحمتُ اللّٰه تعالٰی علیہ، گولڑہ شریف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نعت رسول پاک


چاند سے چمکتے چہرے پر
سیاہ زلفوں کا پہرہ ہے

نورکی روشن کرنیں ہیں
حضور کا روشن چہرہ ہے

جن و بشر حور و ملائک
اس چاند سے چہرے پہ ہیں فدا

نور کی برستی بارش ہے
شبنم سے دھلا مکھڑا ہے

پیارے نبی کی آمد پر
گلشن گلشن نکھرا ہے

بہار گلشن تازہ ہے
نور ہی نور پھیلا ہے

رحمت کی برستی بارش ہے
دل میرا کیوں اکیلا ہے

میرے اقا میرے شاہ امم
نگہت پہ کیجئے کرم
شاعرہ
نگہت غفار

نعت شریف اردو شاعری | لکھی ہوئی نعت شریف Naat Sharif In Urdu


نعت شریف اردو میں | Naat Sharif Lyrics In Urdu

نعت پاک

دل کو ملتا جو سکوں آپ کے دربار میں ہے
لطف حاصل وہ کہاں مصر کے بازار میں ہے

شاہوں کے شاہ ہیں سرکار مدینے والے
جزبۂ عشقِ محمدﷺ در و دیوار میں ہے

آپ آۓ تو اندھیروں کے مقدّر جاگے
چاند سورج سی ضیا آپ کے رخسار میں ہے

میرے آقا لو خبر میری پریشاں ہوں بہت
آج کشتی مری اُلجھی ہوئی مجدھار میں ہے

آرزو ہے کہ میں دربارِ مدینہ دیکھوں
منتظر وقت فقط آپ کے اقرار میں ہے

ہر سو گھنگھور اندھیرا تھا اے عطیّہ پہلے
روشنی آپﷺکی آمد سےہی سنسار میں ہے
عطیہ نور

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم | Naat Sharif Lyrics In Urdu


ان کی عنایتوں سے عجب رابطہ ہوا
نورو نشاط زیست کا ہر مرحلہ ہوا

نور ہدی سے میری سنورتی ہے زندگی
"اخلاق مصطفیٰ ہی مرا آئینہ ہوا"

اہل زمیں ہی ذاکر شاہ ہدی' نہیں
میرے نبی کا عرش میں بھی تذکرہ ہوا

شق قمر کو دیکھ کے حیرت میں ہیں سبھی
میرے نبی کی ذات سے یوں معجزہ ہوا

اکملت کہکے دین کو کامل بنا دیا
سارے جہاں میں خوب یہی ضابطہ ہوا

افلاک میں نبی کے سفر کا ہے یہ اثر
اسٹرونومسٹ کو بھی بہت حوصلہ ہوا

کرتے رہیں بلند نہ کیوں ذکر ان کا ہم
رب کی کتب میں ان کا بہت تذکرہ ہوا

حائل نہیں تھی کوئی بھی شیء درمیان میں
خالق سے "عینی " شاہ کا یوں رابطہ ہوا

از: سید خادم رسول عینی

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم | نعتِ نبی مصطفیٰ صلی االلہ علیہ وسلم کی شان میں


مٹ رہی ہے تارکی تشریف لائے مصطفیٰ
چھائی ہر سو روشنی تشریف لائے مصطفیٰ

منفرد ہیں، واسطے ہر قوم کے ہیں وہ نبی
شاد ہے ہر امتی تشریف لائے مصطفیٰ

بے کسوں کے آسرا ہیں اور ان کے دستگیر
دور ہوگی بیکسی تشریف لائے مصطفیٰ

جب پڑھی اکملت کی آیت تو یہ ظاہر ہوا
پوری نعمت ہوگئی تشریف لائے مصطفیٰ

ہے وعزر کا تقاضہ ، سر فرشتوں کا بھی خم
عزت ان کی لازمی تشریف لائے مصطفیٰ

بول بالا دہر میں اچھائیوں کا ہوگیا
ختم ہوگی سرکشی تشریف لائے مصطفیٰ

جل رہا ہے ہر طرف "عینی "ہدایت کا چراغ
چھپ رہی ہے گمرہی تشریف لائے مصطفیٰ
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

ولادتِ نبی کی شان میں نعت شریف | محمد صلی االلہ علیہ وسلم کی شان میں شاعری : چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ


چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ
آنکھیں ہیں کہ بحرین تقدس کے نگین ہیں
ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہے
عارِض ہیں کہ “والفجر” کی آیات کے اَمیں ہیں
گیسُو ہیں کہ “وَاللَّیل” کے بکھرے ہوئے سائے
ابرو ہیں کہ قوسینِ شبِ قدر کھُلے ہیں

گردن ہے کہ بَر فرقِ زمیں اَوجِ ثُریا
لَب صورتِ یاقوت شعاعوں میں دُھلے ہیں
قَد ہے کہ نبوت کے خدوخال کا معیار
بازو ہیں کہ توحید کی عظمت کے عَلم ہیں
سینہ ہے کہ رمزِ دل ہستی کا خزینہ
پلکیں ہیں کہ الفاظِ رُخِ لوح و قلم ہیں

باتیں ہیں کہ طُوبٰی کی چٹکتی ہوئی کلیاں
لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں بول رہی ہے
خطبے ہیں کہ ساون کے اُمنڈتے ہوئے دریا
قِرأت ہے کہ اسرارِ جہاں کھول رہی ہے
یہ دانت ، یہ شیرازہ شبنم کے تراشے
یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے
شرمندہ تابِ لب و دندانِ پَیمبر (صلّی اللہ علیہ و آلِہ وسلّم)
حرفے بہ ثنا خوانی و خامہ بہ صریرے


یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے
یہ عکسِ متانت ہے کہ ٹھہرا ہوا موسم
یہ شُکر کے سجدے ہیں کہ آیات کی تنزیل
یہ آنکھ میں آنسو ہیں کہ الہام کی رِم جھم
یہ ہاتھ یہ کونین کی تقدیر کے اوراق
یہ خط ، یہ خد و خالِ رُخِ مصحف و اِنجیل
یہ پاؤں یہ مہتاب کی کِرنوں کے مَعابِد
یہ نقشِ قدم ، بوسہ گہِ رَف رَف و جِبریل
یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیل
یہ بند قبا ہے کہ شگفتِ گُلِ ناہید
یہ سایہ داماں ہے کہ پھیلا ہوا بادل
یہ صبحِ گریباں ہے کہ خمیازۂ خورشید
یہ دوشِ پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
یہ مہرِ نبوت ہے کہ نقشِ دلِ مہتاب
رُخسار کی ضَو ہے کہ نمو صبحِ ازل کی
آنکھوں کی ملاحت ہے کہ روئے شبِ کم خواب
ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے
تزئین شب و روز کہ تمثیلِ مہ و سال
ملبوسِ کُہن یوں شِکن آلود ہے جیسے
ترتیب سے پہلے رخِ ہستی کے خد و خال

رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور
کردار میں شامل بنی ہاشم کی اَنا ہے
گفتار میں قرآں کی صداقت کا تیقُّن
معیار میں گردُوں کی بلندی کفِ پا ہے
وہ فکر کہ خود عقلِ بشر سَر بگریباں
وہ فقر کے ٹھوکر میں ہے دنیا کی بلندی
وہ شُکر کے خالق بھی ترے شُکر کا ممنون
وہ حُسن کہ یوسف(ع) بھی کرے آئینہ بندی
وہ علم کہ قرآں تِری عترت کا قصیدہ
وہ حِلم کہ دشمن کو بھی اُمیدِ کرم ہے
وہ صبر کہ شَبِّیر تِری شاخِ ثمردار
وہ ضبط کہ جس ضبط میں عرفانِ اُمم ہے

’’اورنگِ سلیمان‘‘ تری نعلین کا خاکہ
’’اِعجازِ مسیحا‘‘ تری بکھری ہوئی خوشبو
’’حُسنِ یدِ بیضا‘‘ تری دہلیز کی خیرات
کونین کی سَج دھج تِری آرائشِ گیسُو
سَرچشمۂ کوثر ترے سینے کا پسینہ
سایہ تری دیوار کا معیارِ اِرَم ہے
ذرے تِری گلیوں کے مہ و انجمِ افلاک
’’سُورج‘‘ ترے رہوار کا اک نقشِ قدم ہے
دنیا کے سلاطیں ترے جارُوب کشوں میں
عالم کے سکندر تِری چوکھٹ کے بھکاری
گردُوں کی بلندی ، تری پاپوش کی پستی
جبریل کے شہپر ترے بچوں کی سواری
دھرتی کے ذوِی العدل ، تِرے حاشیہ بردار
فردوس کی حوریں ، تِری بیٹی کی کنیزیں

کوثر ہو، گلستانِ ارم ہو کہ وہ طُوبٰی
لگتی ہیں ترے شہر کی بکھری ہوئی چیزیں
ظاہر ہو تو ہر برگِ گُلِ تَر تِری خوشبو
غائب ہو تو دنیا کو سراپا نہیں ملتا


وہ اِسم کہ جس اِسم کو لب چوم لیں ہر بار
وہ جسم کہ سُورج کو بھی سایہ نہیں ملتا
احساس کے شعلوں میں پگھلتا ہوا سورج
انفاس کی شبنم میں ٹھٹھرتی ہوئی خوشبو
اِلہام کی بارش میں یہ بھیگے ہوئے الفاظ
اندازِ نگارش میں یہ حُسن رمِ آہُو

حیدر تری ہیبت ہے تو حَسنین ترا حُسن
اصحاب وفادار تو نائب تِرے معصوم
سلمٰی تری عصمت ہے ، خدیجہ تری توقیر
زہرا تری قسمت ہے تو زینب ترا مقسوم
کس رنگ سے ترتیب تجھے دیجیے مولا ؟
تنویر ، کہ تصویر ، تصور ، کہ مصور ؟
کس نام سے امداد طلب کیجیے تجھ سے
یٰسین ، کہ طہٰ ، کہ مُزمِّل ، کہ مدثر ؟

پیدا تری خاطر ہوئے اطرافِ دو عالم
کونین کی وُسعت کا فَسوں تیرے لیے ہے
ہر بحر کی موجوں میں تلاطم تِری خاطر
ہر جھیل کے سینے میں سَکوں تیرے لیے ہے
ہر پھول کی خوشبو تِرے دامن سے ہے منسوب
ہر خار میں چاہت کی کھٹک تیرے لیے ہے
ہر دشت و بیاباں کی خموشی میں تِرا راز
ہر شاخ میں زلفوں سی لٹک تیرے لیے ہے
دِن تیری صباحت ہے ، تو شب تیری علامت
گُل تیرا تبسم ہے ، ستارے ترے آنسو
آغازِ بہاراں تری انگڑائی کی تصویر
دِلداریِ باراں ترے بھیگے ہوئے گیسُو
کہسار کے جھرنے ترے ماتھے کی شعاعیں
یہ قوسِ قزح ، عارضِ رنگیں کی شکن ہے
یہ ’’کاہکشاں‘‘ دُھول ہے نقشِ کفِ پا کی
ثقلین ترا صدقۂ انوارِ بدن ہے


ہر شہر کی رونق ترے رستے کی جمی دھول
ہر بَن کی اُداسی تری آہٹ کی تھکن ہے
جنگل کی فضا تیری متانت کی علامت
بستی کی پھبن تیرے تَبسُّم کی کرن ہے
میداں ترے بُو ذر کی حکومت کے مضافات
کہسار ترے قنبر و سلماں کے بسیرے
صحرا ترے حبشی کی محبت کے مُصلّے
گلزار ترے میثم و مِقداد کے ڈیرے

کیا ذہن میں آئے کہ تو اُترا تھا کہاں سے ؟
کیا کوئی بتائے تِری سرحد ہے کہاں تک ؟
پہنچی ہے جہاں پر تِری نعلین کی مٹی
خاکسترِ جبریل بھی پہنچے نہ وہاں تک
سوچیں تو خدائی تِری مرہونِ تصوّر
دیکھیں تو خدائی سے ہر انداز جُدا ہے
یہ کام بشر کا ہے نہ جبریل کے بس میں
تو خود ہی بتا اے میرے مولا کہ تو کیا ہے ؟

کہنے کو تو ملبوسِ بشر اوڑھ کے آیا
لیکن ترے احکام فلک پر بھی چلے ہیں
انگلی کا اشارہ تھا کہ تقدیر کی ضَربت
مہتاب کے ٹکڑے تری جھولی میں گِرے ہیں
کہنے کو تو بستر بھی میسر نہ تھا تجھ کو
لیکن تری دہلیز پہ اترے ہیں ستارے
اَنبوہِ ملائک نے ہمیشہ تری خاطر
پلکوں سے ترے شہر کے رستے بھی سنوارے
کہنے کو تو امی تھا لقب دہر میں تیرا
لیکن تو معارف کا گلستاں نظر آیا
ایک تو ہی نہیں صاحبِ آیاتِ سماوات
ہر فرد ترا وارثِ قرآں نظر آیا
کہنے کو تو فاقوں پہ بھی گزریں تری راتیں
اسلام مگر اب بھی نمک خوار ہے تیرا
تُو نے ہی سکھائی ہے تمیزِ من و یزداں
انسان کی گردن پہ سدا بار ہے تیرا
کہنے کو تِرے سر پہ ہے دستارِ یتیمی
لیکن تو زمانے کے یتیموں کا سہارا
کہنے کو ترا فقر ترے فخر کا باعث
لیکن تو سخاوت کے سمندر کا کنارا
کہنے کو تو ہجرت بھی گوارا تجھے لیکن
عالم کا دھڑکتا ہوا دل تیرا مکاں ہے
کہنے کو تو مسکن تھا ترا دشت میں لیکن
ہر ذرہ تری بخششِ پیہم کا نشاں ہے
کہنے کو تو ایک ’’غارِ حرا‘‘ میں تیری مَسند
لیکن یہ فلک بھی تری نظروں میں ’’کفِ خاک‘‘
کہنے کو تو “خاموش” مگر جُنبشِ لب سے
دامانِ عرب گرد ، گریبانِ عجم چاک

اے فکرِ مکمل ، رُخِ فطرت ، لبِ عالم
اے ہادی کُل ، خَتم رُسل ، رحمت پیہم
اے واقفِ معراجِ بشر ، وارثِ کونین
اے مقصدِ تخلیقِ زماں ، حُسنِ مُجسّم
نسلِ بنی آدم کے حسِین قافلہ سالار
انبوہِ ملائک کے لیے ظلِ الٰہی
پیغمبرِ فردوسِ بریں ، ساقی کوثر
اے منزلِ ادراک ، دِل و دیدہ پناہی
اے باعثِ آئینِ شب و روزِ خلائق
اے حلقۂ ارواحِ مقدس کے پیمبر (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم)
اے تاجوَرِ بزمِ شریعت ، مرے آقا !
اے عارفِ معراجِ بشر ، صاحبِ منبر !
اے سید و سَرخیل و سرافراز و سخن ساز
اے صادق و سجاد و سخی ، صاحبِ اسرار
اے فکرِ جہاں زیب و جہاں گیر و جہاں تاب
اے فقرِ جہاں سوز و جہاں ساز و جہاں دار
اے صابر و صناع و صمیم وصفِ اوصاف
اے سرورِ کونین و سمیع یمِ اصوات
میزان اَنا ، مکتبِ پندارِ تیقُّن
اعزازِ خود مصدرِ صد رُشد و ہدایت
اے شاکر و مشکور و شکیلِ شبِ عالم
اے ناصر و منصور و نصیرِ دلِ انسان
اے شاہد و مشہود و شہیدِ رُخِ توحید
اے ناظر و منظور و نظیرِ لبِ یزداں
اے یوسف و یعقوب کی اُمّید کا محور
اے بابِ مناجاتِ دلِ یونس و ادریس
اے نوح کی کشتی کے لیے ساحلِ تسکیں
اے قبلہ حاجاتِ سلیماں شہِ بلقیس
اے والی یثرب میری فریاد بھی سن لے !
اے وارثِ کونین میں لَب کھول رہا ہوں
زخمی ہے زباں ، خامۂ دل خون میں تر ہے
شاعر ہوں مگر دیکھ ! مَیں سچ بول رہا ہوں.....♡
سید محسن نقوی
الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے : نعت شریف اردو میں | محسن نقوی کی لکھی نعت شریف
الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے

سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ ترا نام لکھا ہے

گلیوں میں اترتی ہیں ملائک کی قطاریں
احساس کی بستی میں عجب جشن بپا ہے

ہے قریہِ ادراک منور ترے دم سے
ہر ساعتِ خوش بخت جہاں نغمہ سرا ہے

سن لے گا مرا ماجرا تُو بھی کہ ازل سے
پیغام برِ دیدہ و دل موجِ صبا ہے

ہیں ںذر تری بارگہِ ناز میں افکار
تو مرکزِ دلداریِ اربابِ وفا ہے

اب کون حدِ حُسنِ طلب سوچ سکے گا
کونین کی وسعت تو تہہِ دستِ دعا ہے

ہے تیری کسک میں بھی دھمک حشر کے دن کی
وہ یوں کہ مرا قریہِ جاں گونچ اٹھا ہے

اعصاب پہ حاوی ہے سدا ہیبتِ اقرار
جبریلِ مودّت کو یہ دل غارِ حرا ہے

آیات کی جھرمٹ میں ترے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے

اک بار ترا نقشِ قدم چوم لیا تھا
سو بار فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے

خورشید تری راہ میں بھٹکتا ہوا جگنو
مہتاب ترا ریزہ نقشِ کفِ پا ہے

تلمہحِ شبِ قدر ترا عکسِ تبسم
نو روز ترا حسنِ گریبانِ قبا ہے

ہر صبح ترے فرقِ فلک ناز کا پرتو
ہر شام ترے دوشِ معلیٰ کی ردا ہے

تارے ترے رہوار کے قدموں کے شرارے
گدوں ترا دریُوزہ گرِآبلہ پا ہے

یا تیرے خدوخال سے خیرہ مہ و انجم
یا دھوپ نے سایہ ترا خود اُوڑھ لیا ہے

یا رات نے پہنی ہے ملاحت تری تن پر
یا دن ترے اندازِ صباحت پہ گیا ہے

یٰسین ترے اسِ گرامی کا ضمیمہ
ہے نون تری مدح، قلم تیری ثنا ہے

واللیل ترے سایہ گیسو کا تراشہ
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے

فاقوں سے خمیدہ ہے سدا قامتِ درباں
ٹھوکر میں مگر سلسلہِ ارض و سما ہے

غیروں پہ بھی الطاف ترے سب سے الگ تھے
اپنوں پہ نوازش کا بھی انداز جدا ہے

دل میں ہو تری یاد تو طوفاں بھی کنارہ
حاصل ہو ترا لطف تو صرصر بھی صبا ہے

لمحوں میں سمٹ کر بھی ترا درد ہے تازہ
صدیوں میں بھی بکھر کر ترا عشق نیا ہے

دیکھوں تو ترے در کی غلامی میں ہے شاہی
سوچوں تو ترا شوق مجھے ظلِ ھُما ہے

رگ رگ نے سمیٹی ہے ترے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشاں مجھے دنیا نے کیا ہے

خالق نے قسم کھائی ہے اُس شہر اماں کی
جس شہر کی گلیوں نے تجھے ورد کیا ہے

یہ قوس قزح ہے کہ سرِ صفحہِ آفاق
برسات کی رت میں ترا محراب دعا ہے

ہر سمت ترے لطف و عنایات کی بارش
ہر سو ترا دامانِ کرم پھیل گیا ہے

اب اور بیاں کیا ہوکسی سے تیری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِ خدا ہے

سورج کو اُبھرنے نہیں دیتا ترا حبشی
بے زر کو ابوذر تیری بخشش نے کیا ہے

ہے موجِ صبا یا تری سانسوں کی بھکارن
ہے موسم گل یا تری خیراتِ قبا ہے

خورشیدِ قیامت بھی سر افراز بہت ہے
لیکن ترے قامت کی کشش اس سے سوا ہے

زم زم ترے آئینِ سخاوت کی گواہی
کوثر ترا سرنامہِ دستورِ عطا ہے

جلتا ہوا مہتاب ترا رہروِ بے تاب
ڈھلتا ہوا سورج ترے خیمے کا دیا ہے

ثقلین کی قسمت تری دہلیز کا صدقہ
عالم کا مقدر ترے ہاتھوں پہ لکھا ہے

اُترے کا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
قرآں تری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے

محشر میں پرستار ترے یوں تو بہت تھے
صد شکر مرا نام تجھے یاد رہا ہے

اے گنبدِ خضرا کے مکیں میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون مرا تیرے سوا ہے

بخشش تری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محسن ترے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے
محسن نقوی
نعت شریف اردو میں : لب کشائی کروں اوقات سے بڑھ کر ہو گا


نعت

لب کشائی کروں اوقات سے بڑھ کر ہو گا
کچھ کہوں گی تو میری ذات سے بڑھ کر ہوگا

ہے قلم لرزاں تکلم کی کہاں جرات ہے
جو بھی لکھ پاؤں تو ہر بات سے بڑھ کر ہو گا

میں جو سرکار دوعالم کی ثنا کہہ پاؤں
میرے افکار کے اثبات سے بڑھ کر ہو گا

ان کی مدحت کا ہنر پا کے امر ہو جاؤں
لطف پھر اور کرامات سے بڑھ کر ہو گا

روز محشر مجھے مل جائے گدای ان کی
میرا درجہ سبھی درجات سے بڑھ کر ہو گا

بند آنکھوں ہی سے ہوجائے زیارت ان کی
ہر تصور سے خیالات سے بڑھ کر ہو گا

اک اشارہ ہو جو انگشت محمد کا ادھر
بخدا سارے اشارات سے بڑھ کر ہوگا
"ساجدہ انور"

نعتِ رسولِ مقبول صلى الله عليه وسلم | نعتِ رسول محمد


مصطفیٰ صلی االلہ علیہ وسلم
مصطفیٰ مجتبیٰ سرورِ دو جہاں
خاص لُطفِ خدا سرورِ دو جہاں

تیرے دستِ کرم کی بھی کیا بات ہے
ہے شِفا در شِفا سرورِ دو جہاں

تُو نے اُنگلی سے بس اِک اشارہ کیا
چاند ٹُکڑے ہُوا سرورِ دو جہاں

جانتا ہی نہیں کوئی رب کے سِوا
آپ کا مرتبہ سرورِ دو جہاں

ڈُوبے سورج کو لٙوٹا دیا آپ نے
پیڑ چلنے لگا سرورِ دو جہاں

سنگریزوں نے بھی ہے ترے حُکم پر
تیرا کلمہ پڑھا سرورِ دو جہاں

خلقتیں ہی نہیں تیرا خالق بھی تو
مدح خواں ہے تِرا سرورِ دو جہاں

روز و شب چاہیے ہر گھڑی چاہیے
ہم کو تیری عطا سرورِ دو جہاں

آفتاب اُن کا احسان ہے سر بہ سر
کر رہا ہوں ثناء سرورِ دو جہاں
آفتاب عالم قریشی

نعتِ رسول ﷺ | نعت شریف اردو میں : جگمگاتی ہے زمانے کی فضا کون آیا


جگمگاتی ہے زمانے کی فضا کون آیا
ہر طرف پھیلے ہیں انوارِ خدا کون آیا

مانگنے والے ہیں ممنونِ عطا کون آیا
سارے دارا و سکندر ہیں گدا کون آیا

کس کے صدقے میں تجھے راحتِ کونین ﷺ ملی
دل بے تاب ذرا یہ تو بتا کون آیا

کھل گئے بابِ کرم دہر کے مجبوروں پر
ہو گیا درد کے ماروں کا بھلا کون آیا

دین و ایمان بھی قربان مری جاں بھی نثار
کس کی تعظیم کو کعبہ سے جھکا کون آیا

فرش ہم رتبۂِ افلاک ہوا جاتا ہے
بزمِ کونین ﷺ میں اے صلِّ علٰی ﷺ کون آیا

رحمتِ حق کی ہے برسات گنہگاروں پر
لیکے دردِ غمِ عصیاں کی دوا کون آیا


آ گیا لب پہ مرے اسم محمد ﷺ خالدؔ
بزمِ احساس میں جب شور اٹھا کون آیا
نا معلوم

نعت مصطفی ﷺ | نعتِ مصطفیٰ | NAAT E MUSTAFA


جان و دل سب کچھ میرا ان کا ہوا
کیا بتاؤں عشق میں کیا کیا ہوا ‌

سر جھکائے با ادب چلتا ہوا
نؔور میں بھی داخلِ طیبہ ہوا

آپ آئے منزلیں آئیں نظر
سارا عالم پہلے تھا بھٹکا ہوا

دیکھ لیجے چیر کے یہ دل مرا
نامِ احمد دل پہ ہے لکھا ہوا

کر دیا اعلان رب نے، یا نبی!
جو ہوا تیرا، وہی میرا ہوا

یا خدا ، لے نوؔر کی اُس وقت جاں
جب ملے نعتِ نبیﷺ پڑھتا ہوا
نون_میم : نؔورمحمد_بن_بشی

نعت ِرسولؐ ِ مقبول | Naat E Rasool Maqbool Urdu


خطائیں بھول کے راہِ نجات مانگتی ہوں
حضورؐ آپ سے بس ایک نعت مانگتی ہوں

حضورؐ آپ کی دہلیز چُھو کے مر جاؤں
حضورؐ ،خضرؑ کے جیسی حیات مانگتی ہوں

ترے حرم میں ہی سحری کے بعد سجدہ کرؤں
میں ایسی طرز کے صوم و صلات مانگتی ہوں

حضورؑ جالی کے دھاگوں سے باندھ لیں مجھکو
میں لالچی ہوں تبھی کائنات مانگتی ہوں

حضورؑ آپ کے قدموں کی خاک لینی ہے
مگر میں آپؐ کی نعلین ساتھ مانگتی ہوں

ہوا مدینے کی سرمایا ہو تنفس کا
میں اپنی سانس کی خاطر زکات مانگتی ہوں

حضورؑ آپ کی نعلین کی کرامت سے
میں اپنی "میں" کے لیئے صرف مات مانگتی ہوں

دیار_ذات میں ناہید روشنی کیلئے
دیارِبطحا میں صدیوں کی رات مانگتی ہوں
ناہید کیانی
Naheed Kayani

نعت شریف اردو میں : تو شمع رسالت ہے عالم ترا پروانہ

نعت پاک

تو شمع رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ

جو ساقئ کوثر کے چہرے سے نقاب اٹھے
ہر دل بنے میخانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ

دل اپنا چمک اٹھے ایمان کی طلعت سے
کر آنکھیں بھی نورانی اے جلوۂ جانانہ

سرشار مجھے کر دے اک جام لبالب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ

تم آئے چھٹی بازی رونق ہوئی پھر تازی
کعبہ ہوا پھر کعبہ کر ڈالا تھا بت خانہ

مست مے الفت ہے مدہوش محبت ہے
فرزانہ ہے دیوانہ دیوانہ ہے فرزانہ

میں شاہ نشیں ٹوٹے دل کو نہ کہوں کیسے
ہے ٹوٹا ہوا دل ہی مولیٰ ترا کاشانہ

کیوں زلف معنبر سے کوچے نہ مہک اٹھیں
ہے پنجۂ قدرت جب زلفوں کا تری شانہ

اس در کی حضور ہی عصیاں کی دوا ٹھہری
ہے زہر معاصی کا طیبہ ہی شفا خانہ

ہر پھول میں بو تیری ہر شمع میں ضو تیری
بلبل ہے ترا بلبل پروانہ ہے پروانہ

پیتے ہیں ترے درکا کھاتے ہیں ترے درکا
پانی ہے ترا پانی دانہ ہے ترا دانہ

ہر آرزو بر آئے سب حسرتیں پوری ہوں
وہ کان ذرا دھر کر سن لیں مرا افسانہ

سنگ درجاناں پر کرتا ہوں جبیں سائی
سجدہ نہ سمجھ نجدی سر دیتا ہوں نذرانہ

گر پڑ کے یہاں پہنچا مر مر کے اسے پایا
چھوٹے نہ الہٰی اب سنگ در جانانہ

سنگ در جاناں ہے ٹھو کر نہ لگے اس کو
لے ہوش پکڑ اب تو اے لغزش مستانہ

وہ کہتے نہ کہتے کچھ وہ کرتے نہ کرتے کچھ
اے کاش وہ سن لیتے مجھ سے مرا افسانہ

اے مفلسو! نادارو! جنت کے خریداروں!
کچھ لائے ہو بیعانہ کیا دیتے ہو بیعانہ

کچھ نیک عمل بھی ہیں یا یوں ہی امل ہی ہے
دنیا کی بھی ہر شے کا تم لیتے ہو بیعانہ

کچھ اس سے نہیں مطلب ہے دوست کہ دشمن ہے
ان کو تو کرم کرنا اپنا ہو کہ بیگانہ

حب صنم دنیا سے پاک کر اپنا دل
اللہ کے گھر کو بھی ظالم کیا بت خانہ

تھے پاؤں میں بے خود کے چھالے تو چلا سر سے
ہشیار ہے دیوانہ ہشیار ہے دیوانہ

آنکھوں میں مری تو آ اور دل میں مرے بس جا
دل شاد مجھے فرما اے جلوۂ جانانہ

آباد اسے فرما ویراں ہے دل نورؔی
جلوے ترے بس جائیں آباد ہو ویرانہ

سرکار کے جلووں سے روشن ہے دل نورؔی
 تا حشر رہے روشن نوریؔ کا یہ کاشانہ
صلی اللہ تعالیٰ علی محمد - صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مفتی اعظم ہند مولانا مصطفٰے رضا خان نوری رحمۃ اللہ علیہ

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے