Ticker

6/recent/ticker-posts

نعت شریف اردو |نعت رسول | اچھی اچھی نعتیں اردو میں لکھی ہوئی

نعت شریف اردو میں لکھی ہوئی | نعتیہ کلام | نبی کی شان میں شاعری

نعت رسول مقبول

وہ جس کی زباں زینتِ قرآنِ سخن ہے
زیبائش۔یسین ہے طہ کی پھبن ہے
۔
توحید کے اسرار کا در کھولنے والا
وہ حمد کے ادراک میں الہام کا فن ہے
۔
یہ عالمِ امکان پرستار ہے اس کا
آیات میں لپٹا ہوا تقدیس کا دھن ہے
۔
سیرت ہے کہ اعجاز کا لاریب صحیفہ
صورت ہے کہ انوارِ الہٰی کا بدن ہے
۔
باندی کے لیے اجنبی ماحول بھی اپنا
نوکر کے لیے کوچۂ پردیس وطن ہے
۔
جاگیر پہ سوچیں تو خرد ٹوٹ کے بکھرے
سرورؐ ہے وہ, سلطانِ سلاطینِ زمن ہے
۔
کس حسن کا موجد ہے یہ کوثر کا خزانہ
اک لعل ہے شبیرؑ گہر ایک حسنؑ ہے
۔
کہتے ہیں زمانے سے کماں کھینچتے ابرو
احساسِ متانت ہے کہ ماتھے کی شکن ہے
۔
یہ نعت کا اسلوب یہ اندازِ تکلم
عباس کے الفاظ میں بے ساختہ پن ہے
حیدر عباس

نعت رسول اردو شاعری | شانِ رسول میں شاعری

نعت رسول مقبول

خدا نے نور کے پیکر میں ہے اتارا رسولؐ
کہاں ہم ایسے بشر ہیں کہاں ہمارا رسولؐ
۔
اسی لیے تو مقدر میں کامیابی ہے
قدم قدم پہ رہا اپنا استخارہ رسولؐ
۔
زمین کو بھی فلک ناز رفعتیں بخشے
بلندیوں کا فقط ایک استعارہ رسولؐ
۔
پل۔صراط سے گزریں گے نعت پڑھتے ہوئے
ہمارے واسطے محشر میں ہے سہارا رسولؐ
۔
برس رہا ہے پیامِ خدا سماعت پر
ہے بولتی ہوئ آیات کا شمارہ رسولؐ
۔
یہ آفتاب بھی ہے ریزہء غبارِ قدم
میں کس زبان سے کہ دوں کہ ہے ستارہ رسولؐ
۔
یہ فاتحہ یہ مزمل یہ طہٰ و یسیں
یہ سورہ سورہ پیمبرؐ یہ پارہ پارہ رسولؐ
۔
مجھے یقیں ہے کہ پھر ماہتاب ٹوٹے گا
مجھے یقیں ہے جو پھر سے کرے اشارہ رسولؐ
۔
میں جب کبھی کسی مشکل میں گھر گیا عباس
مری زبان نے بے ساختہ پکارا رسولؐ
حیدر عباس

نعت شریف اردو شاعری : اب فہم کی برسات اے یزداں کے اسد کر

اب فہم کی برسات اے یزداں کے اسد کر
تو دین کا یعسوب ہے تفسیرِ احد کر

چھلنی نہ مجھے کرنی پڑیں اپنی انائیں
یوں مجھ کو عطا ربطِ کرم ہائے صمد کر

تو شمعِ مسافت بھی ہے منزل کا نشاں بھی
بے سمت بھٹکتے ہوئے انساں کی مدد کر

افکار کو اب ضربِ کدورت سے بچا لے
سوچوں پہ لپکتے ہوئے ہر وار کو رد کر

اب پست سلیقوں پہ لہو کھول رہا ہے
اونچا مری تہذیب کا افلاک سے قد کر

اس نسل کو شفاف نظریات کی خاطر
گرویدہء توقیر۔رموزِ اب و جد کر

اے حاصلِ ایماں یہ طرف دار ہے تیرا
پر نور قتیلِ رہ۔ایماں کی لحد کر

آ جائے خدا یاد اگر دیکھ لے کوئ
یوں اپنی ولاء غازہء رخسارِ خرد کر

تقدیر کے اوراق سنہرے نظر آئیں
عباس پہ اب اپنی عنایات کی حد کر
حیدر عباس

صاحبؑ العصر

ڈھونڈتی ہے نظر کہاں ہے تو
جسم ہے زندگی تو جاں ہے تو
کبریائ کا ترجماں ہے تو
زینتِ رمزِ کن فکاں ہے تو
مخزنِ ارضِ جاوداں ہے تو
مصدر۔اوجِ آسماں ہے تو
حرمتِ دیں کا پاسباں ہے تو
حاملِ پرچم۔اماں ہے تو
کاشفِ سر ِ بے کراں ہے تو
ایک ہو کر بھی کارواں ہے تو
وحیِ یزداں کا رازداں ہے تو
سارے قرآن کی زباں ہے تو
قبلۂ عشق میں عیاں ہے تو
کعبہء حسن کی اذاں ہے تو
نطق۔پیغمبرِ زماں ہے تو
آیتوں کے بھی درمیاں ہے تو
فتحِ توحید میں نہاں ہے تو
معنیِ حرفِ کامراں ہے تو
بخششوں کی کھلی دکاں ہے تو
قفل۔کاشانہء جناں ہے تو
حشمت۔وجہِ دو جہاں ہے تو
صاحب العصر والزماںؑ ہے تو

حیدر عباس

حدیثِ کساء

حسنؑ حسینؑ علیؑ مصطفیٰؐ کی بات کرو
بنامِ فاطمہؑ زہراء کساء کی بات کرو

یہ پنجتنؑ کی حسیں انجمن کساء میں ہے
کہا خدا نے مرا بانکپن کساء میں ہے
فلک نشینو ۔! سبھی انما کی بات کرو

یہ مصطفیٰؑ ہے جو رحمت ہے دو جہاں کے لیے
چنا ہے رب نے یہ سالار کارواں کے لیے
اسی کے نام سے ہر پل خدا کی بات کرو

یہ مرتضیٰؑ ہے جسے اختیار سونپے گئے
رموزِ نطق۔لب۔کردگار سونپے گئے
اسے پکار کے سب لافتی کی بات کرو
کرو

یہ فاطمہؑ کہ تعارف ہے پنجتنؑ کے لیے
یہ روح بن گئ اسلام کے بدن کے لیے
اسی کے اذن سے تم لا الہ ٰ کی بات کرو

قبائے سبز میں ملبوس یہ حسنؑ مولا
دل۔رسولؐ کی دھڑکن کا پیرہن مولا
اسی کے فیض سے بس کبریا کی بات کرو

حسینؑ جس کو بشر کی نجات کہتے ہیں
حسینؑ رنگِ رخِ کائنات کہتے ہیں
حسینؑ بول کے کرب و بلا کی بات کرو

انھی کا گھر ہے طہارت کدہ زمانے میں
خدا نے دیر لگائ نہیں بتانے میں
یہیں پہ شرم, تقدس, حیا کی بات کرو

کرم خدا کا تکلم کے گرد ہو جائے
ہر ایک حرف فرشتوں کا ورد ہو جائے
کچھ ایسے عترت۔خیرالنساؑء کی بات کرو

جو ان کے ذکر میں ساعت ہو بد نہیں ہوتی
کوئ بھی آرزو عباس رد نہیں ہوتی
قبول ہوتی ہوئ ہر دعا کی بات کرو
حیدر عباس
@@@

عونؑ و محمدؑ

تہذیبِ معاجز کا سخن عونؑ و محمدؑ
انواع ِ عجائب کا وطن عونؑ و محمدؑ
ترسیل ِِ ولایت کا چلن عونؑ و محمدؑ
مقدور ِ الہٰی کے بدن عونؑ و محمدؑ
کھل پائیں یہ اسرار کہاں بے بصروں پر
یہ نام نوشتہ ہیں ملائک کے پروں پر

احساس کو درپیش الم توڑ کے رکھ دیں
منہ زور حوادث کے قدم توڑ کے رکھ دیں
طغیانی ِ پیمانۂ جم توڑ کے رکھ دیں
خس خانۂ باطل کے صنم توڑ کے رکھ دیں
اس نہج پہ فن پارہء ادراک بنا دیں
چاہیں تو یہ مٹی سے بھی افلاک بنا دیں

سلطانی ِ اقلیمِ سحر ان کے لیے ہے
سدرہ کی منازل کا سفر ان کے لیے
تابندگی۔دین کا گھر ان کے لیے ہے
یزدان شناسی کا ہنر ان کے لیے ہے
ایجادِ تحیر کا خزینہ بھی عجب ہے
کن کاڑھتی سوچوں کا قرینہ بھی عجب ہے

دروازہء ایوانِ کرم کھولنے والے
میزانِ عنایت پہ دعا تولنے والے
پت جھڑ میں بہاروں کی دھنک گھولنے والے
قرآنِ سخاوت کی زباں بولنے والے
بخشش کے ہرے پیڑ نکلتے ہیں یقیں سے
پوچھو تو مرے دل کی فلک بخت زمیں سے

جذبوں کو حرارت کا سبق ان سے ملا ہے
احساس کے سورج کو افق ان سے ملا ہے
الفاظ کو مفہومِ "علق" ان سے ملا ہے
حق یہ ہے کہ گنجینۂ حق ان سے ملا ہے
ممنون ملائک ہیں تو مقروض بشر ہے
دہلیز پہ خم سجدۂ تعظیم میں سر ہے

یہ سوچ کا روزن ہے کہ رستہ ہے خدا کا
اجسام۔تخیل پہ لبادہ ہے ولا کا
اوصاف کے سینے میں ہے دل صلے علی کا
تطہیر کے گلشن سے تعلق ہے صبا کا
فرزانگی۔ظرفِ مؤدت کو بڑھا کر
رکھ لیجیے آیات کو آنکھوں سے لگا کر

یہ اوجِ مراتب ہے کہ کونین کے والی
ہیبت کے تبحر میں ہر انداز جلالی
کچھ ایسی کشادہ ہے عنایات کی تھالی
بے آس پلٹتے نہیں چوکھٹ سے سوالی
سلطانی ِ آفاق ہے یوں تاج وری میں
ہر ذرہء کونین ہے دریوزہ گری میں

تطہیر کے حجرے کے مکیں صاحبِ تقدیر
تقدیر میں آرائشِ پندار ِ جہانگیر
باتوں میں سلونی کے خیالات کی تعمیر
اعجازِ تکلم کی جھلک نعرۂ تکبیر
اب ایسے گہر کس کے خزانے میں ملیں گے
یہ صرف محمدؐ کے گھرانے میں ملیں گے

یہ لشکرِ توحید کے بے باک سپاہی
آنکھوں کے کٹوروں میں خزانے ہیں الہٰی
سانسوں کے تحرک میں رواں امر و نواہی
جرأت کا سلیقہ صف ِ باطل کی تباہی
یوں حلم ِ شہنشاہِ نجف اور کہاں ہے
اس درجہ فضائل کا شرف اور کہاں ہے

پکھراج کی پوشاک میں مرجان خد و خال
انجیل سراپے ہیں کہ قرآن خد و خال
اقلیمِ خد و خال میں سلطان خد و خال
اسلام کی سج دھج کے نگہبان خد و خال
کیا حسنِ معظم کے تفاخر کی جھلک ہے
بیعت میں یہ تابانی ِ خورشیدِ فلک ہے

اندازہء مقدور ِ سخن سوچ میں گم ہے
الفاظ کی موجوں کا بدن سوچ میں گم ہے
ہاں نطق ِ طلسمات کا فن سوچ میں گم ہے
فن کیا فن ِ بے ساختہ پن سوچ میں گم ہے
اس شان کے شایان صدا کوئی نہیں ہے
خالق کے سوا مدح سرا کوئی نہیں ہے

حیدر عباس

قائم المنتظرؑ !

ظلم کا سلسلہ آج کچھ اور ہے
زہر کے لمس سے نیلگوں ہے فضا
قریہ قریہ اداسی کے آغوش کی
تربیت یافتہ چلچلاتی خلش
ہر طرف بندگی کے تقدس کو پامال کرتی ہوئ
طنزیہ نہج پر مسکراتی تپش
چار سو کیا قیامت کا سامان ہے
ہر سحر دوپہر
محشرستان ہے
کس قدر پر فتن دور ہے
تا بہ حد ِ نظر
قہر ہے جبر ہے جور ہے
سر پٹختی ہوئ زندگی کی ضعیفی الم آشنا !
کھردراہٹ میں محصور ہر سانس کی قبر پر
رنج آلود تقریب کا سلسلہ
خون کی گردشیں نوحہ خواں
دھڑکنیں مرثیہ
کرب سہتی جبیں غم سے مانوس ہے
آنکھ مایوس ہے
مجرمانہ تغافل کی زنجیر میں خواہشیں قید ہیں
زرد رو حسرتوں کا گلا گھونٹتی ہے خزاں
الاماں !
الاماں نفرتوں کی یہ بڑھتی ہوئ تلخیاں
چاہتوں کی خنک اور شفاف تر جھیل میں
گھل گیا ہے کدورت کا آتش فشاں
آج انساں کے مجروح جذبات بھی
ٹھوکروں کی اذیت سے دوچار ہیں
مرحلے زیست کے سخت دشوار ہیں
فکر مکروہ ہے
عقل تاریک ہے
قلب بیمار ہیں
کبر و نخوت کی معیوب پوشاک میں جا بہ جا
آدمیت کا خوں پی رہی ہے انا
بندہ پرور ! یہاں آج اپنے تئیں
ہر بشر ہے خدا
سن ذرا !
سن ذرا نا خدا !
 آج مجبور مقہور انساں کے مکسور الفاظ میں
العجل کی صدا
العجل تیرگی سے اٹے اجنبی دشت میں روشنی کی خبر !
پر خطر راستوں کی تھکن اوڑھتے شل مسافر کی خاطر
مسیح۔سفر
العجل منفرد رہنما
معتبر چارہ گر
قائم المنتظرؑ ۔ !
حیدر عباس
نعت شریف اردو میں

Urdu Prem

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے