درودو اذکار بھیج کر خود کو اوپر رکھیے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے تمام مراحل میں دوسروں سے نمایاں، بلند اور اونچا دکھائی دے، اس کے لیے وہ سب سے اوپر کی منزل کو پسند کرتا ہے، دوسرے نمبر پر جانا اسے پسند نہیں ہوتا اور وہ چاہتا ہے کہ ایک نمبر کی پوزیشن میں ہمارا کوئی شریک وسہیم نہ رہے اور یہ مقام بلا شرکت غیر میرے نام محفوظ ہوجائے۔
چوں کہ لوگوں کی بھیڑ میں ہر ایک اس کا خواہشمند ہوتا ہے، اس لیے ایک نمبر کو پانے اور اس پر بنے رہنے کے لیے مزاحمت ہوتی ہے، یہاں کوئی کسی کو راستہ دینے کو تیار نہیں ہوتا، اس کا حل بعض لوگ یہ نکالتے ہیں کہ اپنے سے آگے والے کو گراکر، روند کر، اس کی حیثیت عرفی کو کم کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، ظاہر ہے یہ صورت حال بعض اعتبار سے مہلک ہوتی ہے؛ کیوں کہ اس میں بعضوں کی حق تلفی ہوتی ہے، بعضوں کے جان کے لالے پڑتے ہیں اور بعض مرتبہ اس دھکا مکی میں آدمی مات کھاکر خود ہی گر پڑتا ہے اور دوسرے اسے روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
اس فطری خواہش کی تکمیل کا ایک طریقہ انتہائی محفوظ ہے اور وہ یہ ہے کہ پیغام بھیجتے رہیے، درود واذکار بھیجتے رہیے، خدا سے فریاد کرتے رہیے آپ ایک نمبر پر ہوں گے،اس حقیقت کو سمجھنا بہت زیادہ مشکل نہیں ہے، آج سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر کوئی پیغام رسانی اور پوسٹ کرنے میں مشغول نظر آتا ہے، جو پوسٹ بھیجتا رہتاہے وہ اوپر چلتا رہتا ہے، جس نے پوسٹ بھیجنا بند کیا وہ باقی تو رہتا ہے؛ لیکن دھیرے دھیرے نیچے چلا جاتا ہے، فیس بک وغیرہ پر تو اتنا نیچے چلا جاتا ہے کہ اس کی تلاش بھی دشوار ہو جاتی ہے اور خواہش کے باوجود اس پوسٹ تک پہونچنا ممکن نہیں ہوتا۔
یہی حال انسانی زندگی کا ہے، جو انسان اللہ کے پاس عبادت وریاضت، اذکار واوراد درود شریف وغیرہ بھیجتا رہتا ہے وہ اللہ کے یہاں اوپر رہتا ہے، وہ اللہ کو تنہائی میں یاد کرتا ہے، تو اللہ اسے تنہائی میں یاد کرتا ہے اور اگر بندہ مجلس میں یاد کرتا ہے تو اللہ دنیاوی مجلس سے زیادہ اچھی مجلس میں اسے یاد کرتا ہے، بندہ کاخدا کو یاد کرتے رہنا اوپر بنے رہنے کا دائمی ذریعہ ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اوپر بنے رہنے کے خواہش مند تو ہوتے ہیں، لیکن اللہ کے یہاں کوئی پوسٹ نہیں بھیجتے، نہ عبادات کا، نہ اوراد ووظائف کا، نہ اعمال صالحہ اور طاعت کا، بعض بد نصیب تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی گذر جاتی ہے اور ان کی جانب سے بھلائی کا کوئی پوسٹ اللہ کے پاس نہیں ہوتا، داہنے کا ندھے والے فرشتے بیٹھے رہتے ہیں اور بائیں کاندھے والوں کا رجسٹر بھر جاتا ہے اور اس فرشتے کو فرصت نہیں ملتی، کیوں کہ نامہئ اعمال میں سارے برے اعمال ہوتے ہیں، نیک عمل کا گذر ہی نہیں ہوتا، ایسے میں ہمارا مقام ومنصب سب سے نیچے چلا جاتا ہے، یہی کیا کم ہے کہ اللہ اپنی فہرست سے خارج نہیں کرتا، رائی کے دانے کے برابر دل میں چھپا ایمان کا حصہ اس فہرست میں ہمیں باقی رکھتا ہے، جس کے اثرات قیامت میں بھی سامنے آئیں گے، لیکن ٹاپ والی پوزیشن اسے نہیں مل سکتی، کیوں کہ وہ پوری زندگی خدا کو بھولا ہی رہا ہے اور بھولنے والے کا مقام ملاء اعلیٰ نہیں تحت الثریٰ میں ہوتا ہے۔ اللہ کا قانون عمل اور رد عمل کا ہے، جیسا کریں گے اس کا رد عمل ویساہی ہوگا، اس قانون کے باوجود اللہ نے ان لوگوں کے لئے جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کی قہاری وجباری سے ڈرکر اور مواخذہ آخرت کے خوف سے اپنی بد اعمالیوں سے توبہ واستغفار کر لیا اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں معاف کر دے گا، اس زمانے میں جو مختلف قسم کی بیماریاں اور پریشانیاں عام ہو رہی ہیں یہ سب ہماری شامت اعمال کا نتیجہ ہیں اور ہمارے گناہوں کی صورت مثالی ہے، اس لئے اپنی کوتاہیوں پر ندامت کے آنسو بہائیے اور اللہ سے عافیت کی دعاء کرتے رہئے۔اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق دے۔
آمین!
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے